آل طلباء ایجوکیشن الائنس کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی میں نکالی جانے والے ریلی سے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے حالیہ سکینڈل کے حوالے سے ہم پہلے دن سے ہی اپنے خدشات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کی جانب سے اس شرمسار و شرمناک مسئلے کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ چیف جسٹس کی جانب سے حالیہ بیان میں ہمارے موقف کی تائید کی گئی ہے۔ ہمارا پہلے دن سے ہی موقف رہا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں سکینڈل کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کا بڑی پیمانے پر تعیناتی، جامعہ کی اندر طلباء تنظیموں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی سمیت دیگر مختلف مسائل ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ جامعہ بلوچستان کے اندر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا غیر سیاسی و غیر آئینی اقدام ہے جس کی پابندی کے خلاف ہماری تنظیم پہلے سے ہی جدوجہد کرتی آ رہی ہے لیکن صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے اس اہم مسئلے پر ہماری کوئی شُنوائی نہیں ہوئی ہے جو کہ باعث افسوس ہے. طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کی پابندی کا فائدہ اٹھا کر انتظامیہ اور چند اساتذہ اپنی من مانی شروع کر دیتے ہیں اور طلباء طالبات کو اپنے مزموم عزائم کیلئے بلیک میل و ہراساں کرتے ہیں. اپنی عہدوں کا غلط فائدہ اٹھا کر طلباء کے ساتھ اپنی غیر اخلاقی و غیر انسانی اعمال و اطوار کو سرانجام دینے کی کوشش کیا جاتا ہے. اداروں کے اندر اس طرح کے گھناؤنے واقعات کا رونما ہونے کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں میں طلباء یونین پر پابندی ہے. حالیہ مسائل اس بات کی عکاس ہیں کہ اگر پرامن طلباء تنظیموں پر جامعہ کے اندر پابندی نہ ہوتی تو کسی بھی اساتذہ کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ کسی طلباء کے ساتھ ایسا حرکت کرتا۔
طلباء رہنماؤں نے کہا کہ سکینڈل کے فوری بعد اِس کے مرکزی کردار وائس چانسلر کو باقاعدہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کیساتھ ساتھ اس کیس میں ملوث تمام کرداروں کو پابندِ سلاسل کرنا چاہیے تھا. اس کے برعکس وائس چانسلر نے مصلحت پسندی کا انداز اپناتے ہوئے نہ تو خود اپنے عُہدے سے دستبردار ہوئے اورنہ ہی اپنے ماتحت لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا گوارا کیا. اس تمام گھناؤنے عمل اور اِس کے خلاف کاروائی میں سُست روی کی جھلک دیکھتے ہوئے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں اخلاقی اقدار اور اُس کے پروان کی حقیقت کافی حد تک آشکار ہوئی ہے. ہم اپنی تنظیم کی توست سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس گندے فعل میں ملوث رہا ہے ان کا اوپن ٹرائل کرتے ہوئے انہیں جلد از جلد سلاخوں کے پیچھے ڈالنا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر طلباء کو بلیک میل و ہراساں کرنے کی غلیظ حرکت نہ کرسکے. اس کے ساتھ ساتھ تحقیقی اداروں سے بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ تحقیقات کو پوشیدہ رکھنے کے بجائے سب کے سامنے لائیں گے اور صاف شفاف تحقیقات کو یقینی بنائیں گے لیکن پچھلے چند دنوں میں ایف آئی اے کی سست روی اور خاطرخواہ کارروائی نہ کرنے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ اب ایک پوری سازش کے تحت مسئلے کو دبانے کی کوششیں شروع کی جاچکی ہیں. ایف آئی اے کی شائع ہونے والی رپورٹیں اور تحقیقات شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہیں جس سے طلباء و طالبات کی جانب سے تحقیقی اداروں کی تحقیقات پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں.
رہنماؤں نے مزید کہا کہ حالیہ واقعے نے طالبعلموں کے برسوں منجمد سیاسی شعور میں یک نئی روح پھونکی ہے اور رونما ہونے والے واقعات کو ایک حادثہ کی بجائے سیاسی مسئلہ جانا ہے. ان واقعات کے ردعمل میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے اور جامعہ کے اندر موجود بہت سے معاملات کا راز کھل رہا ہے. طالبعلموں کی طاقت کو دبانے کےلیے اور نئے واقعات کی پردہ پوشی کے لیے مختلف منصوبے بنائے جا رہے ہیں جن کا ادراک ہمیں بطورِ طلبہ تنظیم ہو چُکا ہے۔ جامعہ کے اندر کرپشن کی بھرمار ہے جبکہ انتظامیہ کی بے بسی کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی مرضی سے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے ہیں جس سے ادارے کی ساخت تباہ ہوچکی ہے۔ اگر حقیقی پیمانوں میں تمام واقعات کو پرکھا جائے تو باقی صوبوں کے ساتھ ساتھ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کے اختیارات بھی صوبائی حکومت کو دی دینی چاہیے تھی لیکن بدقسمتی سے صوبے کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ہم چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خود اس مسئلے کی مانیٹرنگ کریں اور خود انصاف کا تعین کریں کیونکہ مسئلے کو دبانے کی کوششیں شروع ہو چکے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کو جو بلوچستان کا مادری ادارہ مانا جاتا ہے اس کو پاک و صاف رکھا جائے اور جامعہ کی حقیقی شکل میں لایا جائے تاکہ بلوچستان کے وہ طلباء جو دور دراز سے صرف پڑھنے کیلئے آتے ہیں خوف و ہراس سے نکل کر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔