بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اورتعلیمی اداروں کے ٹورز
تحریر: ماھگونگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان یونیورسٹی کے حالیہ اسکینڈل کے بعد بلوچستان ایک مرتبہ پھر آتش فشاں بننے جارہاہے، حالیہ اسکینڈل میں جسطرح طالبات کو بلیک میل کرکے انکے ساتھ جنسی استحصال کیاگیا تاریخ میں کہیں بھی کسی بھی سامراج نے ایسانہیں کیاہے، ہاں البتہ پاکستان کی تاریخ میں بنگالیوں کیساتھ ایساکیاگیا جب بنگالیوں نے اپنی آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی تو ان پر جبر وستم کے ساتھ انکی عورتوں کو جنسی ہوس کانشانہ بنایاگیا، آج پاکستان کشمیر پر واویلا کررہاہے کہ وہاں پر بھارت کیجانب درندگی کی تمام حدیں پار کردی گئیں ہیں تو دوسری جانب بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ یہاں بھی کشمیریوں کے ساتھ ایک بھارت اور نازیوں کیساتھ ایک ہٹلر انسانیت سے عاری مظالم پر اتر آیاہے.
بلوچستان کی موجودہ جنگ کے بعد ریاست نے مختلف حربے شروع کیے ہیں اور نوجوانوں کومختلف حربوں سے ورغلایا جارہاہے تاکہ وہ قومی یکجہتی اور قومی فکر کو دل سے نکال کر عیاشیوں اور فحاشیوں میں مصروف رہیں اس سلسلے میں ریاست کی ساری نظریں تعلیمی اداروں پر مرکوز ہیں اور انہوں نے ہرجگہ گروہوں کی شکل میں اپنے ہی بندے یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں تعینات کیے ہیں جو ریاستی مشن کو بخیر وخوبی سرانجام دینے میں مصروف ہیں.
حال ہی میں تربت یونیورسٹی میں ریاستی سربراہی اور فوج کی نگرانی میں ایک میلہ بعنوان یوتھ پیس میلہ کے نام سے منقد کیاگیا، اسکے لیے فوج نے تمام انتظامات کیے اور نوجوانوں کو محب وطن بنانے کےلیے اس میلے میں موسیقی، اور لڑکوں ولڑکیوں کو اکھٹاکرکے انہیں لاہور اور پنڈی کے نظام میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں.
اسکے علاوہ وائس آف بلوچستان نامی این جی او کے زریعے وقتاً فوقتاً مکران کے مختلف کالجز اور یونیورسٹی کے طلباء وطالبات کو اکھٹے لیجاکر پنجاب کا سیر کرایا جاتاہے اور وہاں انہیں مختلف عنوان پر لیکچرر دیئے جاتے ہیں، ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بذریعہ اے ٹی آر لیجانے کامقصد ہرگز یہ نہیں کہ بلوچ طلباء وطالبات ان ٹوروں میں جاکر سیکھیں بلکہ انکو ایک طرح کا ماحول فراہم کیاجاتاہے اور ایک ایسے ماحول کو سازگار بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جہاں قومی فکر کو عیاشیوں کے ذریعے ختم کرکے نوجوانوں کو خالی خولے ڈھانچہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جسکے نتائج بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کے شروع میں سامنے آسکے.
ایک حربہ یہ بھی ہے کہ ریاست نے مکران میں مختلف ایسے آرگنائزیشن ترتیب دیئے ہیں، جنہیں بظاہر نوجوان طلباء وطالبات آرگنائز کررہے ہیں لیکن انکے پاس وسائل کیسے اور کہاں سے آرہے ہیں اور کون انکی خفیہ مدد کررہاہے یہ بات سب پر عیاں ہے جوکبھی ریاست کی ایماء پر وال چاکنگ کرتےہیں اور کبھی یوتھ پروگرام منعقد کرتےہیں، نقد انعامات دیتےہیں جبکہ اس وقت ریاست نے بلوچستان میں ہر اس چیز پر بندش لگارکھی ہے جو واقعتاً بلوچ قوم کیلئے ہورہاہے. بلوچی میگزین اور کتب سے لیکر طلباء کی سیاسی سرگرمیوں تک سب پر پابندی جبکہ این جی اوز کی صورت میں نت نئی چیزیں کریٹ کیئے جارہے ہیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔