بلوچستان کے دختر اپنی عزت بچانے نکلے ہیں
الم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک بار پھر سے بلوچستان کی عزت اور بلوچستان کے روایات پر حملہ ہوا ہے۔ اے بلوچستان! تیرے دختر کی چادر آج محفوظ نہیں تیری دختر آج اپنی عزت و آبرو بچانے کیلئے نکلی ہے۔
جامعہ بلوچستان میں پیش آنے والا واقعہ صرف طالبات کے ساتھ پیش نہیں آیا ہے بلکہ یہ واقعہ بلوچستان کے ہر ایک عزت مند فرد کے ساتھ پیش آیا ہے۔ طالبات بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے یہاں پر تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہیں تو وہ یونیورسٹی سمیت دیگر اداروں کو اپنا گھر اور ایک قلعہ تصور کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ایسے مقامات پر بھی ہماری عزتیں محفوظ نہیں اگر ایسا چلتا رہا تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
ایک سندھی عورت کے لئے بلوچستان پچھلے 14-13 سالوں سے جل رہا ہے. اگر اسی طرح سے اس سرزمین کے بیٹیوں کے عزتوں کے ساتھ اس طرح کھلواڑ ہوتا رہا تو بلوچستان میں جو لاوا پک رہا ہے وہ اگر پھٹ گیا تو یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
کشمیر کی عورتوں کے لئے دل میں درد رکھنے والے بلوچستان کی بیٹیوں کے عزتوں کے رکھوالے آج خاموش کیوں۔ آج ان ہی کے گھر میں ان ہی کی عزتیں محفوظ نہیں اور جامعہ بلوچستان واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف خاموشی سے لگتا ہے کہ ان نام نہادوں کو کشمیر کے عورتوں کی عزتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ وہ اپنی قیمت بڑھانے کے لئے کشمیر کے نام پر ریلیاں نکالتے رہیں ہیں اگر ان میں ذرا برابر بھی درد ہوتا تو آج بلوچستان کی بیٹیوں کو کوئی اس طرح سے ہراساں نہیں کرتا اور کشمیر کیلئے ہلکان ہونے والوں سے سوال ہے کہ آج وہ اپنی بہن و بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے اس دردناک واقعہ پر کیوں خاموش ہیں؟
بلوچستان میں رہنے والوں کا essence جسے غیرت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر modernism کہ ذریعے ہمارے ان روایات کو ہمارے کلچر کو دفنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آج یہ خاموشی ہمیں یہ احساس دلا رہی ہے کہ ہاں ہم مرنا چاہتے ہیں ہاں ہم مٹنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ خاموشی ہمیں ہر صورت ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
تعلیمی اداروں میں ہونے والے درندگی خواتین کو ہراساں کرکے ان کے ساتھ ایسے نازیبا حرکات سے زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ ہورہی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں خواتین کی تذلیل ہوئی بلکہ ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں، بولان میڈیکل کالج میں جس طرح سے طالبات کو ذلیل کیا گیا اور اب یونیورسٹی اسکینڈل کا منظر عام پر آنا قابل تشویش عمل ہے۔ ہم اپنے ہی سرزمین پر رہ کر بھی محفوظ نہیں ہماری عزتوں کو آئے روز تار تار کیا جا رہا ہے۔
نوری، چاکر، نوروز کی بیٹیوں کو کوئی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن افسوس کہ آج انہی بیٹیوں کی ننگ و ناموس کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے آج انہی بیٹیوں کو طرح طرح کے مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کبھی ہانی گل کے اغوا نما گرفتاری کے بعد اسے زیادتی کا نشانہ بنانا تو کبھی ساری ساری رات سڑکوں پر اس سرزمین کے بیٹیوں کو لایا جاتا ہے تو کبھی انہیں بلیک میل کرکے انکے ساتھ نا زیبا حرکات کئے جاتے ہیں۔ ہم ان واقعات پر بھی خاموش تھے اور ہمیں آج بھی خاموشی نظر آرہی ہے۔ ہمیں متحد ہونا ہوگا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا۔ ہم اجتماعی جدوجہد کے ذریعے ہی اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔
بلوچستان کا صرف یہ ادارہ ہی ان بھیڑوں کا نشانہ نہیں بنا بلکہ یہاں ایسے بہت سے ادارے ہیں جہاں پر ایسے بھیڑیے پائے جاتے ہیں سب اداروں میں ایسی غلاظتیں موجود ہیں۔ تمام اداروں کا جائزہ لینا چاہیئے اور تعلیمی اداروں میں کرپشن اور جنسی ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھانا چاہیئے۔
اگر اس مسئلے پر کوئی ردعمل نہیں ہوا اور واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا گیا تو مسئلہ ایک مسئلہ ہی بن کر رہے گا کیونکہ پانی جب تک اوپر سے گندا آتا رہے گا تو نیچے کے پانی کو جتنا بھی صاف کرنے کی کوشش کی جائے بےکار ہے تو بہتر کے اوپر سے ہی پانی کو صاف کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ تمام غلاظتیں ختم ہو سکیں۔
یہ حملہ کلچرل حملہ ہے اور کلچرل حملہ ہمیشہ سے تشدد کا رد عمل ہوتا ہے۔ یہ حملہ تعلیمی دشمنی کے بنا پر بھی ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں خواتین کا شرح خواندگی اتنا زیادہ نہیں ہوتا لیکن ابھی جب خواتین کو تعلیم کے ذریعے آگے بڑھنے اور خود کی صلاحیتوں کو جاننے کا موقع مل رہا ہے تو اسے بھی روکنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ والدین مجبور ہو کر اپنے بچیوں کو پھر سے اس چار دیواری میں رکھیں جہاں پر صرف اور صرف جہالت ہی ہوسکتی ہے ایک پڑھا لکھا معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا اگر اسی طرح سے خواتین کے ساتھ یہ ظلم ہوتا رہا تو معاشرہ افراتفری کا شکار بنے گا اور ایک پڑھے لکھے معاشرے کے بجائے ایک جاہل معاشرہ تشکیل پائے گا۔ ہمارے سوچ کو مفلوج کیا جارہا ہے۔
سقراط کو زہر کا پیالہ اس لئے دیا گیا کہ وہ نوجوانوں کو سوچنا سکھاتا تھا لیکن وہ زہر کا پیالہ اگر آج ایسے درندوں کو دیا جاتا تو معاشرے کی برائیاں خود بخود ختم ہوچکی ہوتیں اور ایسے دشمن عناصر جو کہ طلباء کے سوچ کو ابھارنے کے بجائے اس سوچ کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور طلباء میں تنقیدی شعور کے بیدار ہونے کے خطرے کو ٹالنے کے لئے بینکنگ نظریہ تعلیم کا استعمال کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔