بلوچستان میں سیاسی ماحول کی بحالی، ہم سب کی ذمہ داری
تحریر: گہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم قوم پرستوں پہ تو ویسے ہمشہ یہی طنز کیا جاتا ہے کہ آپ بلوچ ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، جتنے بھی قوم پرست ہوتے ہیں وہ انسان دوست بھی ہوتے ہیں۔ اور دوسرے اقوام کے بارے میں بھی انکے درد و غم کا شدید احساس ہوتاہے۔ مگر یہاں صرف مسئلہ یہ ہے جب جس جگہ پہ آگ لگتا ہے تو ہر کوئی سب سے پہلے خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسوقت تمام اقوام کی قومی سوال اور شناخت کا بحران ہے، ہر کوئی اپنے وجود اور تشخص کی بقا کے لیئے جدوجہد کررہا ہوگا۔
میرا آج کا موضوع یہا ں ہمارے معاشرے میں سیاسی جمود کے بارے میں ہے کہ ایک ایسا بھی زمانہ ہوتا تھا ہمارے سماج میں ہر نوجوان سیاسی و ادبی مکالمہ بازی اور بحث مباحثے میں شریک ہوتا تھا اور ہر فٹ پاتھ، تعلیمی ادارے ہوٹلوں میں ہر کسی کو سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ حالانکہ اگر ہم اپنے ملک کی سیاسی تاریخ پر اک نظر دوڑائیں توہمیں ہر جگہ سنسرشپ اور اظہارآزادئی رائے پر قدغن لگا ہوا ملتا ہے، گروپ میں بیٹھنے اور گھومنے کی سخت پابندی کے باوجود بھی ہمیں تاریخ یہ بھی بتاتا ہے کہ لوگ اپنی باتوں کو دوسروں تک پہنچانے کے لیئے مجمع اکھٹا کرنے پر سخت پابندی کی وجہ سے لوگ اپنا پیغام بسوں میں، ریسٹورنٹ میں تقریر کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچاتے تھے، مگر شعور و آگاہی والے سیاسی عمل کے ذریعے اپنے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں ہر طرح کے جمہوری و تنظیمی طریقہ اختیار کرتے تھے۔
اسی طرح اس وقت بلوچستان بھی سیاسی و جمہوری سیاست کا مرکز رہا تھا، نظریاتی و فکری نشستوں کے ساتھ ساتھ بلوچ سیاست میں دلیل و منطق اور سائنٹفک انداز میں سیاسی کارکنوں کی تربیت اسکی سب سے بڑی پہچان ہوا کرتا تھا۔ ہر غیر جمہوری عمل کے خلاف سب سے پہلے بلوچستان کی سیاسی قیادت نے جدوجہد کے میدان میں غیر جمہوری قوتوں کے خلاف آواز اُٹھایا۔ ایوبی دور ہو یا ضیاء کی بربریت، بلوچستان میں سیاسی انداز میں بحالی جمہوریت اور سیاسی عمل کی بحالی کے لیئے سب سے پہلے بغاوت ہوئی۔
نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) سے لیکر MRDتک کی پوری قیادت زندانوں میں قید و بند کی صعوبتوں میں اذیتیں سہہ رہے تھے، مگر پھر بھی سیاسی کارکنوں نے جموریت کی بحالی اور سیاسی عمل کو زندہ رکھنے میں میدان میں سیاسی مزاحمت جاری رکھا تھا۔
اس پورے سیاسی منظر میں بلوچستان کی قوم پرستی کی سیاست میں جُڑے سیاسی قیادت طلباء تنظمیں اُس وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آٓرگنائزیشن (بی ایس او) اپنے عروج پر تھی، ہر کوئی بی ایس او بلوچ قوم پرست جماعتوں پر فخر کیا کرتا تھا اور اپنی مظلومیت کا واحد نجات دہندہ سمجتھا تھا۔ قیادت کی ایک کال پر بے شمار سیاسی کارکنوں نے بے مثال جلسے جلو س سجائے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہماری سب سے بڑی سیاسی و قومی کمٹمنٹ کی مثال تھی۔ سیاست اور سیاسی عمل کے ذریعے ہی عدل و انصاب لانے والی سوچ نے اُس دور میں ہمیں اور ہماری معروض کے حالات و واقعات میں اہم پیش رفت کی تھی۔ اُس وقت میں بھی آمریت کے خلاف بولنا آسان نہیں تھا کوئی پتا بھی نہیں ہلتا تھا، مگر جو ایک فکری و تنظیمی کمٹمنٹ سے وابستگی کی وجہ سے اُس دور کی سیاسی قیادت ہوں یا طلبا لیڈرز نا کوئی خوف سے ڈرتے تھے اور نا لالچ و مراعات سے انکے ارادے کمزور ہوتے تھے۔ ہمیں شددت سے انتظار ہے اُن لمحوں کی کہ بلوچستان کے ان سیاسی و ادبی سرکلز پھر سے آباد ہوں، ایک طرف خوف و لالچ اور دوسری جانب ہماری مضبوط سیاسی نظریہ و پروگرامز ہوں جو ہر چیز سے بالاتر ہو اور ہمارے لیے مقدس ہوں تومیرا ایمان ہے کہ وہ دن دور نہیں ہو گا کہ ملکی سیاست میں سیاسی مذاحمت اور سیاسی عمل کو زندہ رکھنے والے اس فیڈریشن کے اندر بلوچستان کا ایک منفرد مقام ہو گا۔
یہ جو سیاسی فکری ماحول ہے یہ عبدلعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا، عطا اللہ مینگل میر غوث بخش بزنجو سے لیکر آج کی قیادت کی مرہون محنت ہے جو آج بلوچستان کی سیاست کو مزاق بنانے کا دور دیکھ کر ان سیاسی رہنماوں کو بہت تکلیف ہوگا جس نے ایک امید کیساتھ اس سیاسی ماحول کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کے بے تحاشہ نوجونوں نے بھی بلوچستان کی سیاسی و ادبی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے بھی بے پنا جدوجہد کی ہے مگر المیہ یہ ہے آج پھر ان سرکلوں کی کم فعال ہونے کی وجہ سے سیاسی میدان غیر سیاسی گروہوں نے اپنا کاروبار سمجھا ہے اگر ہم آج سے سے اُن سیاسی و تنظیمی اداروں کو منظم انداز میں سیاسی طریقے ازسر نو آغاز کریں تو یہاں (بلوچستان عوامی پارٹی) باپ) ماضی کا قصہ ہوگا۔ اس سیاسی ماحول کی قیام کے لیئے سماج کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے، سیاسی کارکن، صحافی، دانشور، لکھاری سب نے کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسوقت BSO کے تمام فکشن سے ہماری بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ بلوچستان کی سیاست میں BSO کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔