انقلاب کی نئی لہر – امین بلوچ

248

انقلاب کی نئی لہر

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان انگریز سامراج کے قبضے کے بعد سے ہی جنگ کے میدان میں تبدیل ہوچکا ہے، نواب محراب خان، بلوچ خان نوشیروانی، یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد، نواب خیر بخش مری، اکبر خان بگٹی،بالاچ مری، غلام محمد بلوچ اور دیگر بلوچ جہد کاروں کی بدولت بلوچستان میں انقلاب کی کئی کرنیں پھوٹیں اور ان انقلابات نے بلوچستان کے پسماندہ سماج جنہیں قبضہ گیروں نے دانستہ طور پر پراگندہ کرکے اپنے نو آبادیاتی نظام تعلیم کے ذریعے مذید پسماندگی میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے ان میں امید اور جذبے کی طاقت کو جنم دیکر انقلابات کی نمائندگی کرنے پر مجبور کیا۔ اسکے علاوہ ہر دور میں جہد کاروں کی کھیپ نے انکے منصوبوں کے سامنے روڑے اٹکا کر انہیں اس غلیظ عمل سے روکے رکھا۔ اس عمل کو روکنے کے لئے ریاست نے طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ان جہد کاروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرکے ان کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی جس میں ریاست کئی حد تک کامیاب بھی ہوا لیکن بلوچستان کی سرزمین سے پھوٹنے والی انقلاب کی لہروں کو اسے روکنے میں ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ان تمام انقلابات کی بدقسمتی کہیں یا ریاستی حکمت عملی کہ یہ تمام انقلاب اپنے منزل مقصود تک رسائی پانے میں ناکامی کا شکار ہوگئیں اور انقلابیوں کی کشتی بیچ منجدھار میں ہی ڈوب گئی۔

ان انقلابات کو زندہ رکھنے کے لئے نوجوانوں، طالب علموں، جن کی اکثریت بی ایس او آزاد کی تھی نے سر دھڑ کی بازی لگادی لیکن ریاست نے ان نوجوان طالب علم رہنماؤں پر کریک ڈاؤن کا آغاز کرکے سینکڑوں کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد شہید کردیا، بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیکر انقلاب آزادی کو روکنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی جذبے اور ہمت کی اعلیٰ مثال نوجوان طالب علموں نے اس کارواں کے سفر کو ایک نئی سمت دینے کی ہر ممکن جدوجہد کی اور کررہے ہیں۔

بلوچستان میں اگر طالب علموں کے مسائل پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ بلوچستان کے طالب علم ترقی یافتہ دور میں بھی مختلف سہولیات سے محروم نظر آتے ہیں اور ان محرومیوں کا ازالہ تب ہوگا جب بلوچ قوم ایک آزاد ریاست کی مالک ہوگی کیونکہ نو آبادیاتی نظام تعلیم بلوچ طالب علموں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے انکے اندر چھپی صلاحیتوں کا بھی گلا گھونٹ دیگی اور انہیں ایک روبوٹ میں تبدیل کردیگی۔

پاکستانی نو آبادیاتی نظام اور انکا نظام تعلٰیم دکھ، تکلیف کو محسوس کرنے والے طالب علم نہیں بلکہ وحشی جنونی اور درندوں کو ہی جنم دینے کا باعث بن چکی ہیں۔ اور کئی وحشی درندے اس نظام تعلیم کے پیچھے چھپ کر اپنے ہوس کی تشفی حاصل کرنے کی گھناؤنے عمل کا حصہ بن چکے ہیں جسکی حالیہ مثال بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں پیش آیا جب ایف آئی اے نے بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی اسکینڈل اور بلیک میلنگ کے واقعات کا انکشاف کیا جس نے یونیورسٹی انتظامیہ کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی۔

یہ دلخراش واقعہ جس نے پورے بلوچستان میں ایک کھلبلی سے پیدا کردی ہے اور اس واقعے کے خلاف بلوچ طالب علموں کا جم غفیر سراپا احتجاج ہے اور انکا مطالبہ ہے کہ وائس چانسلر سمیت تمام ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اوروائس چانسلر اخلاقی طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔

ان تمام صورتحال سے واضح نظر آتا ہے کہ بلوچستان ایک نئے انقلاب کی راہ پر گامزن ہے اور یہ انقلاب برپا کرنے والے بلوچ طالب علم ہے۔ وہ طالب علم جنہوں نے ہر دور میں انقلابات کو نہ صرف منظم کیا بلکہ اپنے سماج میں پنپنے والی سماجی برائیوں کے خلاف کسانوں، مزدوروں کو انقلابات کا پیغام دیکر اپنے ساتھ ملایا اور سامراج کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

یہ وہی طالب علم ہے جنہوں نے لالہ لجپت رائے کی انگریز سامراج کے ہاتھوں شہادت پر انگریز سامراج میں ایک کھلبلی سی پیدا کردی تھی اور انکی جدوجہد نے انگریز جیسے طاقتور سلطنت کو ہندوہستان سے بیدخل ہونے پر مجبور کیا۔ یہ وہی طالب علم ہیں جنہوں نے نازی جرمنی کے خلاف جنگ میں پھانسی کے پھندے کو قبول کیا، یہ بنگلہ دیش کے وہ طالب علم ہے جنہوں نے اپنے قومی زبان بنگالی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور یہی انقلاب آگے جاکر بنگلہ دیش کی آزادی پر منتج ہوا۔

جواہر لال نہرو کہتے ہیں کہ واقعات ہی انقلاب کی بنیاد ہوتے ہیں۔ آج بلوچستان کے تعلیمی اداروں سمیت سماج کے ہر حصے میں ایسے دلخراش واقعے رونماء ہورہے ہیں لیکن ان واقعات کو انقلاب کی لہروں میں تبدیل کرنے کے لئے پالیسیوں کا فقدان نظر آتا رہا ہے لیکن حالیہ یونیورسٹی واقعہ جس نے انقلاب کی نئی لہروں کو جنم دیا، کیا واقعی طالب علموں کا یہ انقلاب بلوچستان کی آزادی پہ منتج ہوگا یا کشتی بیچ منجدھار میں ایک مرتبہ پھر ریاستی سازشوں کا شکار ہو کر ڈوب جائیگی؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کریگا۔

موجودہ حالات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انقلاب کا یہ سلسلہ تھمنے کے بجائے مذید شدت اختیار کرتا جائیگا کیونکہ پاکستانی نظام کے فرسودہ روایات اور غلیظ خیالات اس تحریک کو پروان چڑھانے میں طالب علموں کی مکمل رہنمائی کریں گے اور بلوچستان کے طالب علموں کی نحیف آواز ایک گرج دار آواز میں تبدیل ہو جائیگی۔

موجودہ انقلابی حالات ذہن میں کچھ خدشات اور سوالات کو جنم دیتے ہیں، جن کا جواب ہی انقلاب کے سمت کو تعین کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔

کیا بلوچ طالب علموں کی منتشر طاقت اپنے تمام نظریاتی اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس انقلاب کو اپنے حتمی منزل تک پہنچاننے کی صلاحیت و طاقت رکھتی ہیں؟ کیا یہ انقلاب وی سی کی معطلی یا جنسی اسکینڈل میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاننے کے مطالبے کے بجائے نو آبادیاتی نظام تعلیم اور نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کی تحریک میں تبدیل ہو جائیگی؟ کیا اس گھٹن زدہ ماحول کے خلاف تمام طلباء آرگنائزیشن ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر اس کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟

اگر ان سوالات کے مثبت جوابات سامنے آئیں اور تمام احتجاجی قومی غلامی کو مد نظر رکھ کر اپنے احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع کردیں اور آزادی پسند تنظیمیں انقلاب کو حتمی سمت دینے کے لئے واضع پالیسیوں کو سامنے لاکر انقلاب کو حتمی منزل تک پہنچائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔