انصاف کا منتظر راشد حسین
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں ریاست کی جانب سے عام عوام پر ظلم و جبر کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے، جس دن سے ریاست نے اپنے ناپاک قدم اس سرزمین پر رکھے ہیں بلوچوں پر ستم کے داستان دہرائے جارہے ہیں اور اسی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ریاست اپنے تمام منفی حربے بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جن میں ڈیتھ اسکواڈ اور مقامی غنڈوں کو استعمال کر کے کئی بلوچ آزادی پسند رہنماؤں اور ان کے خاندانوں کے خلاف کریک ڈاون کر کے ان کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔
2006 میں جب نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچ عوام کی طرف سے ریاست کے خلاف شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا تو اسے کاونٹر کرنے کے لیے ریاست نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کروا کر شہید کرانا یا اغوا کی شکل میں ان کو اٹھا کر بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا، جو آج تک شدت سے مظلوم عوام کے خلاف جاری ہے اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں بھی عروج پر ہیں۔
بلوچستان کے دیگر علاقوں کے طرح ریاست نے خضدار میں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کردیا، جس میں بلوچ سیاسی کارکن سمیت انکی فیملیز کو نشانہ بنایا اسے طرح گذشتہ سال 26 دسمبر 2018 کو شارجہ سے لاپتہ ہونے والا بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کا خاندان بھی اس بربریت کا نشانہ بنا، جن میں راشد کے دو کزن دو ماموں اور ایک بھائی شامل ہیں، جو ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور راشد حسین کے ایک اور بھائی کو کچھ سال قبل حب چوکی سے اغواء کرکے 18 دن قید میں رکھ کر انسانیت سوز تشدد کے بعد رہا کردیا گیا تھا اسکے علاوہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے انکے گھر پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا گیا اور کئی بار گھر میں گھس کر گھر کو آگ لگانے کے واقعات پیش آئے-
راشد حسین بلوچ کا قصور یہ ہے کہ جب اس کے خاندان کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ان کی جائیداد پر مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں نے قبضے کیا تو راشد حسین کے خاندان نے اپنا باقی بچا کھچا جائیداد کو بیچ کر خلیج ممالک کا رخ کیا، جہاں راشد حسین بلوچ اور اس کے کزن محنت مزدوری کرکے اپنے گھروں کو چلا رہے تھے، راشد حسین بلوچ ساتھ ساتھ اپنے فرائض کو بھی سرانجام دے رہا تھا اور ریاست کے خلاف سوشل میڈیا پر کیمپین بھی چلا رہے تھے، بلوچستان میں جتنے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتے راشد بلوچ انہیں سوشل میڈیا پر پیش کرتے، راشد بلوچ کو شاہد اس بات کی سزا دی جاری ہے، انہوں نے ریاست ظلم بین الاقوامی سطح پر ظاہر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
26 دسمبر کی صبح جب راشد اپنے دیگر دو کزنوں کے ہمراہ منامہ اجمان سے انٹرنیشنل سٹی کے جانب جارہے تھے کہ شارجہ کے مقام پر دو گاڑیوں میں سوار ابوظہبی کے خفیہ اہلکاروں نے گاڑی روک کر تمام افراد کے کارڈز چیک کرنے کے بعد راشد حسین کو اپنے ہمراہ لے گئے اور راشد بنا کسی مزاحمت کے انکے ہمراہ چلا گیا، کیونکہ راشد کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ پاکستان اسے کس شاطری سے نشانہ بنا چکا ہے اور یوں وہ 6 ماہ ابو ظہبی کے کسی قید خانے میں بند رہے، جسے پھر پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔
راشد حسین کے غائب ہونے کے بعد انکے خاندان سمیت بلوچ سیاسی کارکنوں نے کئی جگہ رپورٹ درج کرائے اور احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن اماراتی حکام نے راشد حسین کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھ کر نا کسی وکیل تک رسائی دی نا اسکی کوئی قانونی چارہ جوئی کرائی گئی، پھر 22 جون 2019 کو راشد حسین کو العین سے بغیر امیگریشن، بغیر پاسپورٹ کے ایک پرائیویٹ جیٹ میں بٹھاکر نوشکی دالبندین منتقل کردیا گیا، جہاں عرب شیخ پکنک منانے کے غرض سے ہوائی سفر کے زریعے آتے ہیں ۔
دوسری جانب بی این پی کے رہنما سردار اختر مینگل نے بھی ہمیشہ مظلوموں کی آواز بنے ہیں، جو کام سوشلسٹ کے نام پر سیاست کرنے والے نیشنل پارٹی نے نہیں کی وہ کام سردار اختر مینگل نے کی، اختر مینگل کے چھ نکات میں مسنگ پرسنز کا مدعا ایک اہم نقطہ ہے، اختر مینگل وہ واحد شخصیت ہے جنہوں نے ریاست کے ایوانوں میں مظلوم کی آواز کو پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اسی کے کاوشوں کی بدولت کئی لاپتہ افراد واپس منظر عام پر آنے لگے ہیں اسی امید کے ساتھ اختر مینگل بھی راشد حسین بلوچ کا کیس بھی ایوانوں میں ضرور اٹھائے گا، شاہد اختر مینگل کے اس عمل سے راشد حسین بلوچ کی والدہ اور اس کی بہن گودی فریدہ بلوچ کو اس کی بھائی کی واپس آنے کی ایک نئی امید اور حوصلہ ملے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔