امریکی ایوانِ نمائندگان کا ترکی پہ پابندیوں کا بل پیش کرنے کا اعلان

117

امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں حکمران جماعت رپبلکن پارٹی کے ارکان نے شام میں عسکری کارروائی پر ترکی کے خلاف پابندیوں کا بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کانگریس کی خاتون رکن لز چینی نے کہا کہ ترکی کو خطے میں ہمارے کرد اتحادیوں پر بےرحمی سے حملہ کرنے کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس تنازعے میں ثالثی کے خواہاں ہیں۔

ادھر ترک افواج کی جانب سے حملوں میں تیزی آنے کے بعد شمالی شام میں ہزاروں افراد نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے اور محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ہے۔

ترک فوج نے فی الوقت سرحدی قصبوں راس العین اور تل ابیض کو گھیرے میں لیا ہے اور امدادی اداروں کو خدشہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ ترکی کی شام میں کردوں کے خلاف عسکری کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے شمال مشرقی شام سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی اور اس اقدام کو دراصل حملے کی اجازت کے حربے کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔

ترکی کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف) کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اس کے بقول ترک مخالف شورش کی حمایت کرتی ہے۔ ایس ڈی ایف دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کلیدی حریف رہی ہے اور اس نے امریکہ کی جانب سے ترکی کو کارروائی سے نہ روکنے کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا نے ترکی کو سرحد پار سے حملہ کرنے کی موثر طور پر گرین لائٹ دی جس کے بارے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد شام کی سرحد کے ساتھ 480 کلومیٹر ایک محفوظ زون بنانا ہے۔

تاہم یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ کارروائی نہ صرف کردوں کی نسل کشی کا موجب ہو سکتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بھی سر اٹھا سکتی ہے۔