اسلم سے استاد اور پھر جنرل تک کا سفر – عائشہ اسلم بلوچ

726

اسلم سے استاد اور پھر جنرل تک کا سفر

تحریر: عائشہ اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

استاد آج جسمانی طور پر ہم سے جدا ہیں، مگر فکری طور پر وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں، پچیس سال ایک بہت طویل عرصہ ہوتا ہے، یقیناً ان پچیس سالوں کے سفر میں استاد نے کافی مشکلات اور پریشانیاں دیکھیں ہونگی، مگر کبھی استاد نے ان مشکلات اور پریشانیوں کو ظاہر نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اپنے اس سفر کو خوبصورت اور حسین کہتے تھے۔

ایک لیڈر ہونے سے قطع نظر میں ان کے کردار کو محض ایک والد ہونے کے کسوٹی پر رکھ کر دیکھوں تو استاد ایک انتہائی مہربان و شفیق والد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ایماندر انسان تھے۔ ایک والد ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ دنیا کی ہر خوشی اپنے اولاد کو دوں، اس کی ہر خواہش کو پورا کروں، اسے ہر تکلیف سے دور رکھوں، مگر استاد بہت ہی الگ انسان تھے۔ جہاں وہ تعلیم و تربیت میں باپ ہونے کے ناطے اپنے فرائض سے کبھی کوتاہی نہیں برتتے تھے، وہیں خاندان کو لیکر کبھی مقصد و نظریئے سے غافل بھی نہیں ہوتے، وہ بچپن سے ہی مجھے اور ریحان جان کو سمجھایا کرتے تھے کہ کبھی بھی میرے سامنے ایسی خواہشیں مت کرنا، کسی بھی ایسی چیز کی فرمائش مت کرنا جو ہمارے مقصد سے متصادم ہو کیونکہ میری ذمہ داری صرف تم اور ریحان نہیں ہو، میری ذمہ داری میری پوری قوم ہے اور ہم ان حالات میں نہیں کہ میں تم لوگوں کی خواہشات پوری کروں اور میں تم لوگوں سے بھی یہی امید کرتا ہوں کو تم لوگ بھی ان سب چیزوں کو سمجھو گے اور ابھی سے ان پر غور کرو گے۔

اپنے بچپن کا ایک قصہ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ایک بار میں نے کھانے پر نخرا کیا کہ جو پکا ہے مجھے یہ نہیں کھانا ہے، اس پر استاد مجھ سے ناراض ہوگئے تھے، انہوں نے کہا ہمارے قوم کے کتنے بچے ایسے ہیں جو بھوکے سوجاتے ہیں، جنہیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا، ان کا احساس نہیں تمہیں؟ ہمارے دوست پہاڑوں پر خوار ہیں، کئی کئی دن ان کو کھانے کو کچھ نصیب نہیں ہوتا، پانی پر گذارہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ پانی بھی پینے کو نہیں ملتا اور تم لوگ بیٹھ کر نخرہ کرتے ہو؟ کم از کم تم لوگوں سے میں یہ امید نہیں رکھتا۔ اگر تم ان چیزوں کا احساس نہیں کروگے تو کون کریگا؟ آج بھی استاد کی ہر بات ذہن میں نقش ہے، اور اس راہ پر خار میں رہنمائی کرتی رہتی ہے۔

ریحان جان اور میں ایک ساتھ بڑے ہوئے، میں قربان اپنے نور ریحانو پر، ریحان جان نے اپنی زندگی بہت ہی سادگی سے گذاری، مجھے یاد نہیں کبھی بھی ریحان نے کسی بھی خواہش کا اظہار کیا ہو، بچپن سے ہی میرے خیال میں خواہشات ہر شخص کو ہوتی ہیں، مگر ان خواہشات کو کنٹرول کرنا اور وقت اور حالت کے سمجھنے کی صلاحیت کسی کسی کے پاس ہوتی ہے اور ریحان جان بھی انہیں میں سے ایک تھا۔ ریحان جان کی پھٹی ہوئی چپل ہوتی تھی جو ہمیشہ انکے پیروں میں ہوتی اور گنے ہوئے تین جوڑے کپڑے۔ انہوں نے اس کم عمری میں اپنا وقت کس طرح سے گذارا جسے میں کیا ہر اس شخص نے دیکھا جن کے ساتھ ریحان جان رہا، اس سے دوست بھی بخوبی واقف تھے، مگر پھر بھی کبھی گمان میں یہ نا تھا کہ ریحانو اتنا بڑا کام کرے گا، ہم سب کو حیران کردیگا۔

ابو ہمیشہ کہتے تھے وقت کی اہمیت کو ہمیشہ سمجھو، ابھی کے کام کو بعد پر مت چھوڑو، آج کے کام کو کل پر مت چھوڑو، جس کام کا جو وقت ہے اس کام کو اسی وقت پر کرو، تبھی آپکے کام میں کامیابی حاصل ہوگی، اگر یہی سوچتے رہوگے کہ کام بعد میں کرولونگا، یا بعد میں ہوجائے گا، تو پھر بیٹھے رہو گے، اگر ہمیشہ سستی اور کاہلی سے کام لوگے، پھر بس وقت اور حالت کو بیٹھ کر کوستے ہی رہوگے اور کوسنے والے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ ہمیشہ میرے بچوں یہ بات یاد رکھنا وقت اور حالت ویسے ہی بنتے ہیں، جیسے ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم گھر کے ماحول کو خوبصورت بنانا چاہیں تو وہ ایک بہتر انداز میں خوبصورت بن سکتا ہے اور ہم اگر اسے خراب کرنا چاہیں تو ہم اسے بہت خراب کرسکتے ہیں، ہم اگر سکون چاہیں تو سکون ورنہ بے سکونی۔ استاد کی ہر بات کتنی قیمتی ہوتی تھی اس بات کا اندازہ اب بہت شدت سے ہوتا ہے۔

استاد ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ صرف اپنے بارے میں سوچنے والے لوگ کبھی بھی انقلابی نہیں ہوتے، جو لوگ صرف اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں ان سے کسی بھی قسم کی امید کرنا بےوقوفی ہے اور آپ لوگ بھی ایک بات اچھے طریقے سے سمجھ لو کہ ہمیشہ خود سے پہلے دوسروں کا سوچو، ہمیشہ آس پاس نظر رکھو کہ ہمارے لوگ اور قوم کن حالات سے گذر رہی ہیں، اگر استاد کے ساتھ ایک گھنٹہ بھی میں بیٹھ کر مجلس کرتی، وہ ایک گھنٹہ بھی مجھ سے صرف اور صرف انقلابی باتیں کرتے، دوسرے قوموں کی مثال دیتے، بلوچ قوم کی باتیں ہی کرتے، کبھی بھی مجھے یاد نہیں کہ استاد نے مجھ سے کافی دیر تک کوئی ذاتی مجلس کی ہو، انہیں بلوچ قوم سے جنون کی حد تک پیار تھا، کبھی کبھی میں ان کو دیکھ کر حیران ہوجاتی، استاد دل کا مریض تھا، دوہزار دس میں ان کا بائی پاس ہوا، ڈاکٹر نے انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا، زیادہ چلنے پھرنے اور سفر کرنے سے منع کیا تھا، مگر پھر بھی استاد نے بائی پاس کے ایک مہینے بعد ہی پہاڑوں کا رخ کرلیا، ہم سب نے استاد سے آرام کرنے کی التجاء کی، ڈاکٹروں نے بھی منع کیا، مگر استاد نے کہا نہیں میں اب بالکل ٹھیک ہوں اور بولان جاکر میری صحت اور بہتر ہوجائے گی اور وہ پہاڑوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور دو سالوں تک وہیں رہے، اس دوران دو سالوں تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی، دو سال بعد اس کی واپسی کی خوشی بیان نہیں کرسکتی، استاد اس وقت صحت مند تھے، انکی طبیعت بہتر تھی، وہ اپنا کام اسی طرح لگن سے کرتے گئے۔

اسی دوران ایک دن ہم سے ریحان جان نے اپنے مقصد کا ذکر تھوڑا چھیڑا، اس وقت ریحان جان کی عمر اتنی نہیں تھی، میں نے ہنس کر کہا، ریحان بولنا آسان ہے مگر کرنا مشکل۔ میرے اس بات سے استاد مجھ سے خفا ہوئے اور کہنے لگے اگر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو کسی کے جذبات کا مذاق مت اڑاو۔ یہ کام کرنا یا نا کرنا بعد کی بات ہے، اس نے صرف ہمت کرکے یہ کہا میں کرونگا، یہ خود میں ایک بہت بڑی ہمت کی بات ہوتی ہے۔ مگر مجھے کیا پتہ تھا چار سال بعد ریحان جان وقت کے ضرورت کو سمجھ کر دلیری و بہادری سے اس کام کو پورے لگن سے کرکے دکھائے گا۔

استاد ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے، اگر ان کو یہ بھی پتہ ہوتا کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے پھر بھی وہ ہمیں کہتا تھے کرسکتے ہو، اس دنیا میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کہ ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ بس ہمیشہ ہمت و حوصلہ مت ہارنا۔ استاد نے پھر پہاڑوں کا رخ کیا، اس دفعہ بولان کی طرف پورے ایک سال آپریشن کا سلسلہ جاری رہا، اسی آپرشن کے دوران استاد زخمی بھی ہوئیں ، خون زیادہ بہنے کی وجہ سے استاد کمزور ہوگئے تھے۔ ایک سال کے بعد جب ابو لوٹے تو انہیں دیکھ کر میں نے ان سے کہا آپ بہت کمزور ہوگئے ہو اس بار، استاد نے مسکرا کر کہا نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں کمزور تو بالکل بھی نہیں ہوں۔ مگر ان کی طبیعت بالکل بھی ٹھیک نہیں تھی، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد پتے کے آپرشن کا کہا، کچھ ہی وقت میں استاد کے پِتے کا آپریشن ہوا، ابھی تک ان کا پِتہ ٹھیک بھی نہیں ہوا تھا کے ان کے دل کا مسئلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ ایک دن اچانک ان کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی، دوائی سے کوئی فرق بھی نہیں پڑ رہا تھا۔ انکی طبیعت اتنی بگڑ گئی اسکے بعد ایک بھی ایسی رات نہیں گذرتی کہ انہیں ڈاکٹر کے پاس لیجانا نا پڑتا۔ مگر پھر بھی وہ آرام نہیں کرتے تھے، پورا دن اپنا کام کرتے رہتے تھے، کئی بار گھر میں ہم لوگ ان کو کہتے تھے آپ آرام کریں، کام تو ہوتا رہے گا اور وہ ہمیشہ کہتے میں آرام کرنے کے لیئے نہیں نکلا ہوں۔ ان کیلئے سب سے اہم ان کا کام تھا، خود سے بھی پہلے وہ اپنا کام رکھتے۔ چاہے وہ جتنا بھی بیمار ہوتے مگر کبھی بھی اپنی بیماری کو اپنے کام پر حاوی ہونے نہیں دیتے، یہ بھی ان کا حوصلہ تھا کہ وہ اس حالت میں بھی اپنا کام پورے لگن اور ہمت سے کرتے تھے۔

اس بیماری کی دوران استاد کے بہت ہی قریبی دوستوں نے انہیں دھوکہ دیا اور جس دن استاد کے خلاف بیان دیا گیا اس دن استاد کی طبیعت بہت خراب تھی وہ ہسپتال میں داخل تھے۔ یہ دیکھ کر میں بالکل حیران و پریشان رہ گئی کہ کیا ہوا؟ کیونکہ میرے لیئے بالکل یقین کرنا مشکل تھا۔ میں سوچ رہی تھی، مجھے اتنا دکھ ہورہا ہے، میں اس طرح محسوس کررہی ہوں، استاد پتہ نہیں کیسے ہونگے؟ مگر استاد کے حوصلہ و ہمت اور اس وقت ان کی باتوں نے میری ہر حیرانی وہ پریشانی کو ختم کردی۔

استاد کبھی بھی کسی بھی حالت میں ہمت نہیں ہارے، ناہی وہ کبھی مایوس ہوئیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا مقصد کیا ہے اور ان کو کیا کرنا ہے۔

جب ریحان جان اپنے کام کے لیئے اماں سے رخصت کرکے نکل گیا، بدقسمتی سے میں اس وقت گھر میں موجود نہیں تھی، جب گھر آیا تو مجھے کسی بات کی کوئی خبر نہیں تھی، کچھ دیر بعد ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے کچھ ہوا ہے، اماں سے پوچھا تو انہوں نے کہا نہیں کچھ بھی نہیں ہوا، سب کچھ ٹھیک ہے، پر رات کو استاد سے پوچھنے پر پتہ چلا، جیسے ہی استاد نے بتایا میں پانچ منٹ بالکل خاموش سی ہوگئی، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، پر ریحان جان سے اسی رات میری آخری بار بات ہوئی، وہ باتیں میں نے اپنے ایک تحریر میں پہلے لکھیں تھی، اس کے بعد گھر میں استاد اور اماں کا جو حوصلہ و ہمت تھا وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ استاد نے ہم سب کو کہا تھا کہ ریحان جان کے لیئے ایک آنسو بھی نہیں بہانا، اگر تم اداس ہوکر رو کر اس کے لیئے ماتم کرو گے تو یہ اس کے فیصلے اور قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ وہ ہنس کر ہمت و حوصلے کے ساتھ گیا، اب تم لوگ بھی اس کی شہادت پر خوش ہونا، رونا نہیں، ہنس کر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا، ہمت و حوصلہ رکھو، ریحان جان کی کامیابی کا جشن منانا، کبھی سوگ کو اپنے قریب بھٹکنے بھی نہیں دینا۔

یہ باتیں بہت مجھے حیران کر دیتے کہ اتنا بڑا دل کیسے ہے استاد کا، وہ اتنا بڑا درد کیسے ہنسی و خوشی کے ساتھ برادشت کررہا ہے۔ واقعی ریحان جان کے شہادت کے دن جشن جیسا ماحول تھا، سب کچھ ریحان جان نے بدل دیا، ہم سب کی مایوسی کو توڑ کر ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا، ریحان جان کے دوستوں نے اس کے چنے ہوئے راستے کو ویران نہیں ہونے دیا، اس کے پیچھے تیس نومبر کو چین قونصل خانے پر حملہ کرکے ثابت کر دیا ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، دشمن کی نیندیں آڑ گئیں تھیں۔

اس حملے کے بعد استاد کو کافی دوستوں نے کہا اپنا خیال رکھے، احتیاط برتیں، ہم بھی استاد کو کہتے مگر استاد کسی کی بھی نہیں سنتے تھے، اپنے وقت پر اپنا کام کرتے تھے، وقت پر جانا، وقت پر کام کرنا، کسی چیز کا بھی خوف نہیں۔ ان کی بات ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ موت سے کون چھپ سکتا ہے، موت بر حق ہے تو موت کے ڈر سے میں کیوں اپنے کام پر توجہ نہیں دوں، یا کام نہیں کروں۔ یہ تو میری خوش نصیبی ہوگی کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔ اسی مہینے کے اندر اندر دشمن نے اپنا زور لگا کر استاد کو شہید کردیا۔

استاد کی خواہش شہادت کی موت تھی، آج ہم گھر والے ہوں یا استاد کے دوست، یا بلوچ قوم کا ہر نوجوان، ہم سب جانتے ہیں کہ استاد کی سوچ کو فکر کو، ان کے طریقہ کار کو، آج ہم سب کو مل کر آگے لے جانا ہے، انکا نظریہ، زاویہ نظر، وہ جس طریقے سے کام کو سنبھالتے تھے، جیسے کام کرتے تھے، آج ہمارا فرض بنتا ہے کہ اسی تسلسل کو توڑے بنا جاری رکھیں بلکہ اس میں مزید بہتری لائیں، تبھی ہم سب کو یہ یقین ہوگا کہ استاد ہم سے نہیں بچھڑا ورنہ ہمیشہ یہی محسوس ہوگا کا ہم نے استاد کو کھو دیا ہے۔۔۔۔ اسلم بلوچ سے استاد اسلم اور استاد اسلم سے جنرل اسلم تک کا سفر استاد ہی نے طے کیا اور اس مقام تک خود کو پہنچایا اور استاد وہ نام اور کردار ہیں، جسے لوگ برسوں تک یاد رکھیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔