ہانی بلوچ اور ظالم ریاست
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم فلسفی سقراط کا خیال تھا کہ اگر آدمی دلی طور پر مطمئن نہ ہو تو وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا، اور جو یہ جانتا ہے کہ خوشی کیسے حاصل ہوتی ہے،وہ وہی طرز عمل اپناۓ گا۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ جو سچ کی پہچان رکھتا ہے، وہ صحیح راستے پر چلے گا۔ کوئی غیر مطمئن زندگی گذارنا آخر کیوں پسند کرئے گا؟
یہاں یہ سوال معقول لگتا ہے کہ آخر بلوچ قوم کیوں غیر مطمئن ہے، وہ ریاست پاکستان کے ساتھ کیوں نہیں رہنا چاہتے ہیں؟
پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا ایک اسلامی ملک ہے۔ بلوچ قوم بھی اللہ اور اسکے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے مسلمان ہیں۔ اسکے باوجود بلوچ قوم آخر کیوں پاکستان سےاپنی آزاد اور خودمختار ریاست کے لیے جنگ لڑ رہی ہے، تو اسکا سیدھا اور سادہ سا جواب یہ ہے، کہ بلوچ قوم سچ کی پہچان رکھتا ہے۔ اسلیئے پاکستان کے ساتھ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ تاریخ سے ہم سب آشنا ہیں کہ کیسے پاکستان نے بلوچستان کی آزاد ریاست پر قبضہ کرلیا۔ تب سے لے کر آج تک بلوچ قوم پاکستان کےساتھ اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہی ہے؟ اسلام ہمیں حقوق العباد کی پاسداری کا درس دیتا ہے۔ لیکن اسکے برعکس اسلام کے نام پر بننے والے ریاست پاکستان میں جنگل کا قانون ہے۔
بلوچستان میں پاکستان کے ظلم و بربریت کی فہرست بہت ہی لمبی اور نہ ختم ہونے والی داستان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان نہ صرف بلوچستان کے ساحل و وسائل کی لوٹ مار کر رہا ہے، بلکہ بلوچ قوم کے نوجوانوں، بزرگوں، کی جبری گمشدگیوں میں بھی ملوث ہے، جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والوں کی مسخ شدہ لاشوں کو دہشت و ویرانوں میں پھینک کر بلوچ قوم کی نسل کشی میں بھی مصروف ہے۔
پاکستانی فوج کے ظلم کی داستان کا شرمناک پہلو صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کی فوج نے عورت ذات جو کہ عزت و احترام کی مستحق ہے، پاکستانی فوج نے بلوچ عورتوں کو بھی اپنے ناپاک مظالم کا نشانہ بنایا ہے اور اب بھی بلوچ قوم کی عورتیں اسکے ظلم اور بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بلوچ قوم کی ایک بیٹی ہانی گل بلوچ جو بلوچ مسنگ پرسنز کے کمیپ میں آکر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرکے خود کے لیے انصاف مانگ رہی ہے ، ہانی بلوچ نے نازی فوج کے مظالم کے ریکارڈ توڑنے والی پاکستانی فوج کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کیا۔ جس کے لیے بڑے حوصلے، بہادری اور ہمت کی ضرورت چاہیئے ہوتی ہے۔ ہانی گل کو ان کے منگیتر کے ساتھ کراچی سے پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء کیا۔ ہانی گل کو تین مہینے جبری طور پر حراست میں رکھا گیا اور اسے زیادتی کا شکار بنایا گیا، ہانی گل کو اذیتیں دینے کے بعد رہا تو کر دیا۔ لیکن وہ گھاؤ جو اسے ذہنی طور پر مفلوج کر گئے وہ کبھی بھی نہ بھر پائیں گے! ہانی کا منگیتر تاحال پاکستانی خفیہ اداروں کے حراست میں ہےاور لاپتہ ہے۔
اب ہانی کس سے انصاف چاہتی ہیں؟
ہانی ،پاکستان کے کٹھ پتلی جمہوری حکومت اور اسکے عدالتوں سے انصاف کی طلب گار نہیں ہے۔ بلکہ ہانی اپنے ان بلوچ بھائیوں اور بلوچ قوم کے نام نہاد قوم پرست رہنماؤں سے انصاف چاہتی ہیں، جن کا پاکستان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ انکے مردہ ضمیروں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے؟
پاکستان کے ان مظالم کی داستان نئی نہیں ہے، ہماری ماں، بہنوں کے ساتھ کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جب سے پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا ہے تب سے اسکے ان مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔
مرحوم گوریلا کمانڈر شیروف مری کی ریکارڈ پر یہ بات موجود ہے کہ پاکستانی فوج بلوچ خواتین کو اغواء کرکے پنجاب میں بھیجتی تھی، نواب براہمداغ بگٹی کی بہن اور بھتیجی کو کراچی میں پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جس بے رحمی اور بے دردی سے شہید کیا، وہ واقعہ بھی پاکستان کے سیاہ کارناموں کی فہرست میں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ شہید جنرل اسلم بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہل خانہ کو کوئٹہ سے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اداروں نے اغواء کیا، اور کتنے دنوں تک حراست میں رکھا۔ آۓ دن بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ عورتوں کو انکے معصوم بچوں کے ساتھ اغواء کرکے عقوبت خانوں میں قید کیئے ہوئے ہیں۔ ایسے مظالم اور جبر کے بعد بلوچ قوم کیسے اس نام نہاد ریاست پاکستان کے ساتھ رہنا چاہے گا، جس کی وجہ سے ان کی ننگ و ناموس ان کی عورتیں محفوظ نہیں ان کی جان اور مال ، عزت محفوظ نہیں ہیں۔
بلوچ قوم پاکستان کے ساتھ نہ خوش ہے اور نہ ہی مطمئن ہے، انھیں سچ کی اچھے سے پہچان ہے۔ اس لیے وہ صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔ بلوچ قوم اپنے ان رہبروں اور ان سرمچاروں کی ہمت، عظمت اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، جو اپنے وطن اور اسکے باسیوں کے لیے ایک ایٹمی اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان بلوچ فرزندوں کو جہنوں نے بہادری اور جواں مردی سے موت کو گلے لگایا انکو سلام ، انہوں نے تاریخ میں ایک مثال قائم کر دیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو سبق دیا کہ حق اور سچ کے مقابلے میں زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
یہ پیغام بھی دیا کہ جنگ سے گریز آزادی سے محرومی کی یقینی صورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔