کینسر کا مریض حاصل خان بزنجو – اشک بلوچ

366

کینسر کا مریض حاصل خان بزنجو

تحریر: اشک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حاصل خان بزنجو یوں تو بہت پہلے ہی بلوچ قوم کے لیے لاحاصل خان بن چکے ہیں۔ وہ کچھ اس طرح کہ اس کے آقاؤں نے اسے اتنا ذلیل کر دیا ہے کہ وہ اب باؤلے کتوں کی طرح اسلام آباد اور پنڈی کی گلیوں میں گھومتا رہتا ہے۔ اور اپنی وفاداری کے سارے ثبوت اور فائلز لے کردر در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ کہیں سے کوئی شنوائی نہ ہوئی تو پھر وہی بزغر و بزّگ بلوچ قوم کے پاس آیا کہ دیکھو میں کتنا نڈر ہوں ۔ ظالم کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہوں اور ان کے سامنے انکو للکار رہا ہوں، اور بیمار بھی ہوں۔ کینسر کا مریض ہوں لیکن، لیکن اب تو بلوچ کا بچہ بچہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ بلوچ قوم کو جتنا نقصان اس دلال نے دیا ہے شاید اتنا نقصان تو جی۔ ایچ۔ کیو نے بھی نہ دیا ہو۔ اتنا سستا بِکتا رہا ہے کہ خریدار بھی ششدرہ رہے ہیں۔ اتنا بوٹ پالش کر چکا ہے کہ برش بھی حیران رہ چکا ہوگا کہ یہ میں کس کے ہاتھ لگ گیا۔ اور انتہا یہاں تک کہ جب پالش ختم ہوا ہے تو موصوف نے زبان سے بھی چاٹنے سے گریز نہیں کیا۔ اور اب بلوچ قوم زبانِ حال سے یہ دعا کر رہی کہ اللہ کرے جس کینسر کا موصوف ذکر کر رہے ہیں۔ جس کا وہ ماتم کر رہے ہیں، جس کا پرچار کرکے تپسوی جی عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں وہ کینسر منہ کا کینسر ہو تاکہ اس دلال کی زبان سڑ جائے۔ اس کے منہ میں لگےکیڑے باقی دلالوں کے لیئے بھی عبرت کی نشان بن جائیں۔ اور ان کو پتہ چل جائے کہ جس زبان سے اس نے بلوچ ننگ و ناموس کا سودا کیا، بلوچ نوجوانوں کا نام لے کر ڈیتھ وارنٹ پر سائن کیا، بلوچ ماؤں بہنوں کو گالیاں بکی، آج اس زبان میں کیڑے لگ گئے ہیں۔

پچھلے دنوں کچھ یوں بھی پڑھنے میں آیا کہ حاصل خان ،نواب بگٹی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ارے بھئی کُجا قلندر کُجا دھلو فقیر۔ نواب صاحب جب آخری وقت پہاڑوں پر جارہے تھے تو کچھ ہمدرد ساتھیوں نے انہیں کہا کہ نواب صاحب اس پیری یعنی بزرگی میں کہاں نکلنے لگے ہو۔ تو نواب صاحب نے کہا تھا کہ موت میری ملکیت ہے۔ اور اس کو سلیکٹ کرنا میری صوابدید ہے۔ ارے وہ تو ایسے شیرو ں کا شیر تھا کہ اس نے موت کی سیلیکشن بھی خود کی۔ لوگوں نے شاید سنا ہوگا اور ناول و افسانوں میں پڑھا ہوگا کہ فلاں ابن فلاں نے موت کا استقبال کیا۔ اور بلوچ قوم یہ منظر بارہا دیکھ چکی ہے کہ اس قوم کے بزرگوں نے ایک نہیں دو نہیں انگنت مرتبہ موت کا استقبال کیا ہے۔ کبھی نواب نوروز خان کی شکل میں تو کبھی نواب اکبر بگٹی کی صورت۔ باقی فہرست طویل ہے۔ اور جوان تو پھر جوان ہیں جو ہر روز موت کو سینے سے لگا کر تا ابد امر ہو رہے ہیں۔ اور ہوتے رہیں گے۔

تو جناب حاصل خان صاحب! آپ کی عمر ایک ہزار سال بھی ہو جائے تب بھی آپ بلوچ قوم کے لیے بزرگ نہیں بن سکتے۔ ہاں سوائے ان کے جو آپ کی طرح بوٹ پالشی ہوں۔ آپ نے اپنے آقاؤں کے بوٹ پالش کیئے، وہ بیچارے آپ کے تلوے چاٹتے ہیں۔ ان کے لیے آپ چی ہوں گے، ان کے لیے آپ نیلسن منڈیلا ہونگے اور بہت کچھ۔۔ ویسے ایسے عظیم انسانوں کے ناموں کا آپ کے نام کے ساتھ لکھتے ہوئے بھی قلم سرمشار ہے۔ تو جناب نواب اکبر بگٹی صاحب کے پاؤں کے جوتے بھی آپ کے پوری زندگی سے زیادہ قیمتی اور معتبر ہیں۔ شاید کچھ دوست یہ پڑھ کر یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ میں یہ سب کچھ جذبات میں لکھ رہاہوں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ جذبات سے انکار نہیں لیکن اس تحریر میں شعور و آگہی کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔

حاصل خان کے کرتوت سیاہ ترین رات سے زیادہ سیاہ ہیں۔ شرمناک ترین عمل سے زیادہ شرمناک ہیں۔ ان کا کردار اس قدر بدبودار ہے کہ بدبو بھی اس سے پناہ مانگتی ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو تاریخ کے عظیم کرداروں کے ساتھ ملانا خود تاریخ کے ساتھ ظلم ہے۔ اس کے شرمناک حرکتوں سے خود ان کے والد صاحب میر غوث بخش بزنجو کی روح کتنی تڑپتی ہوگی۔ اس کے سفاک کردار سے بلوچ قوم اچھی طرح آگاہ ہو چکی ہے۔ اب یہ جیئے یا مرے بلوچ قوم کو کوئی فرق نہیں پڑنا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔