کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3725 دن مکمل

142

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3725  دن مکمل ہوگئے، حب چوکی سے سیاسی و سماجی کارکن زاہد بلوچ، دستگیر بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔

اس موقعے پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج بلوچ اپنی ننگ و ناموس کی خاطر ریاست پاکستان کے ظلم و جبر کے خلاف برسرپیکار ہے، بلوچ شہداء نے جس عظیم مقصد کے لیے اپنی جانیں قربان کی جبکہ آج حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف بلند کیے جانے والے صداؤں کی پاداش میں ریاست کی جانب سے جبر و استبداد کا ایک تسلسل اور اس میں بتدریج شدت لائی گئی ہے کہ یزیدیت بھی شرما جائے، سرکشی سینہ زوری کی ایسی گھمنڈ کہ ریاست پاکستان عالمی انسانی حقوق کی مروجہ اُصولوں، قوانین کا تمسخرا اُڑا کر انہیں طاقت کے غرور میں شعلوں کے نظر کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا گویا سرکش ریاست پاکستان ہر قسم کے انسانی حقوق کی پاسداری سے مستثنیٰ قرار پایا ہے۔

انہوں نے کہا بلوچستان کے مختلف علاقے پاکستانی فورسز کی کاروائیوں کے نشانے پر ہے، بلوچ آبادیوں پر بمباری، شیلنگ اور زمینی حملوں کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت درجنوں افراد شہید جبکہ متعدد کو اغواء نما گرفتاری کا شکار بنایا جاچکا ہے جبکہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے، اہلخانہ و رشتہ داروں کو اٹھاکر غائب کرنا بھی معمول کا حصہ بن چکا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بدنام زمانہ ڈی پی آر (ڈیفینس آف پاکستان رولز) نیا نافذ کردہ سیاہ قانون ہے جس کی روح سے خفیہ اداروں کو کسی بھی شخص کو تین مہینے تک اپنی حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہے، بلوچ قوم جو پہلے ہی ریاست کی ظلم کا شکار ہے، 47ہزار بلوچ تاحال خفیہ اداروں کی عقوبت خانوں میں ہیں ان میں دس ہزار کے لگ بھگ کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہے اب اس قانون کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جب چاہیں، جیسے چاہیں بلوچ، سندھی، پشتون فرزندوں کو اپنے مظالم کا نشانہ بناسکتے ہیں۔