مشال بے مثال – میر بلوچستانی

431

مشال بے مثال

تحریر: میر بلوچستانی

دی بلوچستان پوسٹ

سیاسی میدان میں قدم رکھنا قطعی طور کوئی آسان انتخاب نہیں ہے۔ اور سیاسی میدان میں قدم جمانا سب سے مشکل کام ہے۔ اگر میدان پرخار اور قدم بہ قدم رکاوٹیں بھرا ہو تو مشکلات ناممکنات کی حدوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا ہی میدان بلوچ دھرتی کا ہے۔ مصائب و مشکلات سے گھرا بلوچ وطن تاریخ کے کٹھن ترین نہج تک پہنچ چکا ہے، جہاں انسانیت شرمسار ہے۔ جینا اور مرنا دونوں برابر اذیت ناک ہیں۔ سماجی و معاشی ڈھانچے تہس نہس ہیں جبکہ سیاست کانٹوں کی سیج بن چکا ہے۔

یوں سطح پر نظر دوڑائی جائے تو لگتا ہے کہ نوجوانوں سے بزرگوں تک بڑے پیمانے پر لوگ سیاسی ہلچل کا حصہ ہیں۔ آئے روز میدان سجے نظر آتے ہیں۔ چائے بسکٹ یا بریانی پارٹی ہے۔ فوٹو سیشن ہے۔ پیری مریدی ہے۔ جے جے کار ہے۔ مگر، ذرا سا بھی گہری نظر سے دیکھو تو عیاں ہو جاتا ہے کہ یہ سب ایک تیز طوفانی ہوا کے بہاو میں الٹ پلٹ بہے جا رہے ہیں۔ کئی سر کے بل کھڑے ہیں تو کئی کلابازیاں کھا رہے ہیں۔ کئی رینگتے ہوئے جارہے ہیں تو کئی تنکے کے سہارے اڑان بھرنے کیلئے کوشاں ہیں۔

جہاں تک قدم رکھنے کی بات ہے تو کسی کے بھی پیر دھرتی ماں کی چھاتی پر نہیں پڑ رہے۔ کیونکہ دھرتی ماں کا سینہ چاک خون سے لت پت بارود کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس بارود کے ڈھیر پر بھی بچھے خاردار فرش پر آج کے نازک فرزندان کو اپنے قدم رکھنے کی توفیق نہیں ہو پا رہی۔ اس لیئے سیاست کے نام پر آسان راستوں کا انتخاب کرکے ذاتی مفادات و مراعات حاصل کرنا نصب العین بن چکا ہے۔ جبکہ وہ نظریاتی سیاست جو دھرتی کی چھاتی کو تاہیر و سکون دے اور جبر و استحصال سے نجات کی بنیادیں بھی فراہم کرے، بڑی مشکل چنوتی بن چکی ہے۔

یہ چنوتی بھی بلوچ سپوتوں کیلئے یکساں حیثیت نہیں رکھتی بلکہ صنفی فرق مشکلات کو مزید گھمبیر کر دیتا ہے۔ مرد کے برابر عورت کو اس انتخاب کی قطعی طور پر آسانی حاصل نہیں ہے بلکہ عورت کیلئے رکاوٹیں ان گنت ہیں۔ جس میں مرد کا اپنا پدرشاہانہ سماجی کردار اولین فہرست میں شامل ہے۔ عورت بے شک تمام سماجی مسائل سے واقفیت رکھتی ہو اور انکے حل سے بھی آشنا ہو مگر پھر بھی اسے مردانہ سماج کی بندشیں وہ اجازت نہیں دیتی جنہیں پھلانگ کر وہ اپنا تاریخی فریضہ سرانجام دے سکے۔ گھر سے لیکر سماجی زندگی کے ہر شعبے میں عورت اپنے پاوں میں غلامی کی بیڑیاں لیئے پہر رہی ہوتی ہے جنہیں ہمارا سماج زنجیروں کے بجائے خوبصورت پازیب مانتی ہے۔ گویا عورت ہر لحاظ سے دوہرے تہرے جبر کا شکار ہے۔ تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف صنفی فرق کی وجہ سے ہی وہ کتنی مصائب کا بوجھ سہہ رہی ہے۔

ایسے میں سیاسی میدان میں اترنے کیلئے بلاشبہ مضبوط نظریہ اور انقلابی جذبہ ہی وہ شے ہوتی ہے جو تمام رکاوٹوں کو توڑ کر میدان میں بھی اتار دیتی ہے اور قدم جمانے میں بھی کارگر ثابت ہو جاتی ہے۔ ایسے انقلابی نظریات کی داعی تنظیم بی ایس او ہی ہے جس نے ہر دور میں سر جھکا کر چلنے کے بجائے سربلندی کا حوصلہ عطا کیا۔ سماج کی نبض پر ہاتھ رکھ کر تمام پیچیدگیوں کا ادراک بھی رکھا اور ان کے حل بھی پیش کیئے۔ جدوجہد کے میدان میں ایسے انقلابی رہبر پیدا کیئے جن پر قوم کا سر فخر سے بلند ہے۔ بی ایس او کے انقلابی آدرش ایک مکمل ضابطہ اخلاق عطا کرتے ہیں کہ جن کی پاسداری کرتے ہوئے ایک ادنی طالب علم انقلابی قائد بننے کی معراج تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ وہ سایہ دار درخت ہے کہ جس کی چھتر چھایہ میں آنے والے طلباء واپس اپنی بیگانہ دنیا میں لوٹنے کے تمام خیالات ترک کر دیتے ہیں۔ ہاں، مگر اس تن آور درخت کے سائے کے نیچے آنے کی جرات اور سمجھ آج کے وقت میں صرف چند سرفروشوں کو ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس درخت کے رکھوالوں نے ہمیشہ اسکے سائے کی راحت کا تو مطالبہ کیا مگر اس کی آبیاری کرنے کی توفیق کبھی نہیں کی۔ ہمیشہ یہ چاھ رکھی کہ ہمیں یہاں سے کیا ملے گا، کبھی یہ نہ سوچا کہ ہم اسے کیا عطا کرینگے۔ یہی اسباب بنے کہ اس درخت کے گرد بھی کانٹوں کا ڈھیر جمع ہوگیا اور وہ راحت بھرا چھاوں نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گیا ہے۔

مگر، باوجود اس کے فکری سپوتوں کی اتنی تعداد آج بھی موجود ہے کہ وہ اس خوبصورت درخت کی آبیاری بھی کر رہے ہیں اور اس کے سچے نظریات کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔ اپنی مسلسل جہد سے تاریکیوں کے اندر شمعیں روشن کرکہ درست راہیں دکھا رہے ہیں۔ بے حسی، بیگانگی اور خود پسندی سے نوجوانوں کو نکال کر اجتماعی فکر کی آبیاری بھی کر رہے ہیں۔ جن میں سے ایک نام انتہائی کمٹڈ اور بہادر سپوتری بانک مشال بلوچ بھی ہیں۔

بانک مشال بلوچ اکیسویں صدی کے آغاز کی جنریشن سے ہے جس نے جنگی حالات میں آنکھیں کھولیں۔ جب انہوں نے شعوری عمر میں قدم رکھا تو سیاست گالی بن چکی تھی۔ خودپرستی و شوشن سماجی اقدار بن چکے تھے۔ تعلیمی ادارے علم و آگہی فراہم کرنے والے درسگاہوں کے بجائے خوف و وحشت کے مراکز میں تبدیل ہو چکے تھے۔ سماج پوری طرح دھندلا گیا تھا اور شاید فرد کا اپنے آپ سے بھی ملاقات ملال ہو چکا تھا۔ اب نہ جانے مشال کی وہ کونسی خوبرو نظر تھی کہ اس شدید دھند میں بھی وہ بی ایس او کے سائے کو دیکھ پائی۔ اور وہ بس اسی سائے کو منزل سمجھ کر کارواں کا حصہ بن گئی اور اپنی زندگی کو ایک عظیم مقصد دینے میں کامیاب ہوگئیں۔

سنگت مشال بلوچ کو ایک سال کا انتہائی مختصر عرصہ ہوا ہوگا جو انہوں نے اس کٹھن سفر کا انتخاب کیا ہے۔ مگر یہ مختصر مدت ان کی زندگی کے مشکل ترین مدتوں میں سے ایک ثابت ہوا۔ لیکن اس مختصر وقت نے انہیں بہت بڑی درس حاصل کرنے کا موقع عطا کیا۔ ایک سال کے سیاسی دورانیئے نے انہیں انکے ساتھیوں کی آٹھ مہینے کی جبری گمشدگی کے کربناک سفر سے بھی آشناء کرایا اور خوف و ہراس کے ماحول کے اندر ہمت و حوصلے کے جذبے کو پانے کا گن بھی سکھایا۔ مرکزی قائدین کی جبری گمشدگی کے موقع پر جس بہادری کے ساتھ مشال بلوچ ڈٹی رہی وہ انکی فکری مضبوطی پر مہر تصدیق ثبت کر گئی اور آخری مرکزی اجلاس میں جس جرات کے ساتھ انہوں نے مرکزی ذمہ داری لینے کیلئے خود کو پیش کیا یہ ان کی دیرپا قدم جمائے رکھنے کے انقلابی جذبے کو آشکار کر دیتا ہے۔

بلوچ دھرتی کی طرح بی ایس او بھی ہمارے لئے مادرعلمی کے ساتھ ساتھ ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور اس ماں کو بانک مشال جیسی ساتھیوں کے جراتمند خاتوں مل جانے سے یقین مستحکم ہو جاتا ہے کہ یہ مادر عملی بھی ایک ماں کی آغوش میں آچکی ہے اور آج کے عہد میں ممتا کی نعمت ہی اس عظیم ادارے کو سایہ دار درخت بنانے کی ضامن بنے گی۔

جیسا کہ بی۔ایس۔او کے سرخ پرچم پر ثبت مشعل صبح نو کی جانب رواں دواں انقلابی فتح کی نشانی ہے اسی طرح ہماری کامریڈ مشال بلوچ بھی صبح نو کی جیتی جاگتی منظر و امید ہے جو اس خواب کو یقین میں بدلنے میں کامیاب ہونگی کہ جس کی چاہت بلوچ قوم نسلوں سے کرتے آئی ہے اور آج کی نسل بھی وہی خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہے۔ وہ خواب جو قوم کو انسانی سماج میں سکھ کی سانس لینے کا موقع فراہم کرے گی اور دھرتی کو بھی سکون و راحت کا گہوارہ بنائے گی۔

سب سے منفرد بے مثال بہادر بلوچ بیٹی کامریڈ مشال بلوچ کو بی ایس او کی مرکزی کمیٹی کا رکن بننے پر دل کی گہرائیوں سے ڈھیر ساری بدھائیاں۔ !


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔