محبت روح کے سبزہ زار کا تبسم ہے – امین بلوچ

1212

محبت روح کے سبزہ زار کا تبسم ہے

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

محبت ایک جذبہ ہے اسکی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ محبت روشنی کی ایک کرن ہے جو اپنے اندر بے شمار رنگ سمیٹے ہوتی ہے لیکن جب اس کو جذبوں کے شیشے کی منشور میں سے گذارا جائے تو بے شمار حسین رنگ پھوٹ پڑتے ہیں اور ان رنگوں میں بے شمار جذبے پروان چڑھتے ہیں۔

بعض لوگ محبت کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتے ہیں حالانکہ محبت کی تقسیم ممکن ہی نہیں، لیکن اگر ہم ان کی رائے کو تسلیم کر لیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماں کا اپنے بچوں سے پیار بھی محبت ہے، استاد بھی اپنے شاگرد سے پیار کرتا ہے، اپنے معشوق سے کسی تخلیق کار کو بھی اپنی تخلیق سے محبت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ انسانی رشتوں سے بھی بڑھ جاتی ہے، انسان کا بچہ بھی ایک تخلیق ہے، قدرت کی۔ میرے کمزور ذہن کے مطابق ہر چیز کی ایک محبت ہوتی ہے لیکن جو محبت و عشق دھرتی کی ہوتی ہے وہ کسی میں بھی نہیں ہے کیونکہ دھرتی ماں ہوتی ہے۔

انسان جس دھرتی پر پیدا ہوتا ہے یا جس ملک میں ہجرت کرکے مستقل قیام کرتا ہے اور اس ملک کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرتا ہے اور اس ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہے، وہ ملک اس کا وطن ہوتا ہے۔ انسان کو اپنے وطن کی مٹی اپنے وطن کے پہاڑوں، دریاوں، وادیوں، لہلہاتے کھیتوں، سرسبز میدانوں، وطن کے ایک ایک گوشے سے محبت ہوتی ہے۔ اپنے وطن کی مٹی میں انسان کو جو سکون ملتا ہے وہ اسے کہیں اور نصیب نہیں ہوتا، وہ اپنے وطن کی محبت کے ترانے گاتا ہے، گیت لکھتا ہے، گذرے ہوئے ہیرؤں کو سنہرے الفاظ سے یاد کرتاہے، انسان جہاں کہیں بھی چلا جائے اسے اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو آتی رہتی ہے۔ اپنے وطن کی یاد ہمیشہ ستاتی رہتی ہے، یہ انسان کی اپنے وطن سے لازوال محبت ہی تو ہے کہ وہ اپنے وطن کی محبت کے لیے اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

وطن سے محبت کی سب سے بڑی مثال فوجی جوان ہیں، جو اپنے وطن کی حفاظت کے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور وطن سے محبت کی لازوال داستان رقم کرتے ہیں۔ نرم بستر چھوڑ کے میداں جنگ کی طرف رخ کرتے ہیں، یہی تو وطن کی بے پناہ محبت ہے، مائیں اپنے بیٹوں کو، بہنیں اپنے بھائیوں کو اور بیویاں اپنے شوہروں کو وطن کی محبت میں قربان کردیتی ہیں۔ دہشتگردی کی جنگ میں نہ صرف فوجی جوانوں نے وطن کی محبت میں اپنی جانیں قربان کی ہیں بلکہ اپنے بہادر وطن کے عاشقوں کے شانہ بشانہ ہزاروں شہریوں نے بھی پوری دنیا میں وطن کی محبت میں بے شمار قربانیاں پیش کیں ہیں۔

تاہم ان محبتوں کے ساتھ ساتھ شاعروں نے ایک اور محبت بھی تخلیق کی ہے، یہ وہ محبت ہے جس کے متعلق ہم آج کل کم و بیش ہر نوجوان سے تذکرہ سنتے ہیں، اس محبت کا ظالم سماج سے گہرا ربط ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
شاعر کہتا ہے
“اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے”

شاعر نے محبت کے متعلق گہری بات کہی ہے یہ فیصلہ اب ہم و آپ کو کرنا ہے کہ محبت کی جائے یا دنیا کے کام کیئے جائیں، سولہ سترہ برس کا نوجوان یقیناً یہی کہے گا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہو سکتے، محبت صرف محبت مانگتی ہے، ویسے اگر اس جذبے کا صحیح استعمال کیا جائے تو فرہاد کی سی ہمت اور استقلال کے ساتھ شہنشاہ وقت سے بھی ٹکر لی جا سکتی ہے، چاند کی تسخیر ہو سکتی ہے۔

(خلیل جبران )فرماتے ہیں کہ “یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کے ساتھ زندگی کے عملی میدان میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے اور یہی تینوں چیزیں اسلحے کا کام دیتی ہیں” میرے ذہن کے مطابق اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یقین اور محبت کے ساتھ کوئی ملک فتح ہو سکتا ہے، اس کے لیے عمل اور جدوجہد شرط ہے۔

اگر ہم یونانی دیومالائی داستانوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں عجیب قسم کے مفروضات اور نظریات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ ’’محبت اندھی ہوتی ہے‘‘، ان کے نزدیک کیوپڈ اندھا ہے، وہ جس پر بھی تیر چلاتا ہے، وہ اس کا شکار ہو جاتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ محبت اندھی ہوتی ہے، حماقت پر مبنی تصور نہیں ہے؟

اس وقت وہ نوجوان جو محبت کی نرسری میں ہیں، اس بات کو تسلیم کرتے ہوں گے کہ محبت اندھی ہوتی ہے اور معاشرتی قیود سے آزاد بھی، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ محبت کا تعلق روح سے ہے، وہ اپنی اس دلیل کو ثابت کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ انسان پہلے عالم ارواح میں رہتا تھا، وہاں کبھی روحوں کی ملاقات ہوتی ہو گی، انہوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا ہو گا، جب ہم اس کو اس دنیا میں دیکھتے ہیں تو اچانک ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم پہلے بھی کبھی ملے تھے۔
(شیکسپیئر کہتا ہے )کہ
’’محبت اندھی ہوتی ہے اس لئے محبت کرنے والے اپنی ان غلطیوں کو محسوس نہیں کر سکتے جو ہر لمحہ ان سے سرزد ہوتی رہتی ہیں‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ محبت کرنے والے بے شمار غلطیوں کو دہراتے ہیں، بالآخر یہ غلطیاں اس محبت کے تاج محل کو ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہیں، اسی لئے (لارڈ بائرن) کہتا ہے کہ
’’جلد یا بدیر محبت اپنا انتقام خود بن جاتی ہے‘‘،یہ محبت کرنے والے نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں، انہیں محبوب کی ہر ادا اچھی لگتی ہے، محبوب کا ہر غم اپنا غم لگتا ہے اور ہر داستان محبت کو کم و بیش اپنی ہی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں، اس لئے تو ب
(براؤننگ )کہتا ہے کہ
’’جو محبت کرتا ہے وہ ناممکنات کو تسلیم کرتا ہے‘‘

محبت کرنے والے کے نزدیک کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی، اس جذبے کے ساتھ وہ شہنشاہ وقت سے ٹکرا جاتا ہے، کبھی وہ تپتی ہوئی ریت پر لیٹتا ہے، کبھی سرِ دار آتا ہے، کبھی زمین میں گاڑ دیاجاتا ہے لیکن صدیاں بیت گئیں محبت اپنی افادیت کے ساتھ، اپنی ماورائی طاقت کے ساتھ بے پناہ خوبصورتی کا احساس لئے زندہ و تابندہ ہے۔

(جبران) کے بقول’’محبت جذبات کے سمندر کا ٹھنڈا سانس، آسمان کا آنسو اور روح کے سبزہ زار کا تبسم ہے‘‘


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔