جنرل اسلم، بلند و برز بلوچ کردار – نود شنز مندی

590

جنرل اسلم، بلند و برز بلوچ کردار

تحریر: نود شنز مندی

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ میں لاکھوں، کروڑوں لوگ آئے لیکن دنیا کا دستور کچھ اس طرح ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے یاداشت کی زینت بناتا ہے جو کچھ ایسا کر گذرتے ہیں جو خاص بلکہ بنسبت عام کے مشکل بلکہ نہ ممکن ہوتا اور تصور کیا جاتا ہو۔ قوموں میں اس طرح کی شخصیت پیدا ہوتے ہیں جو اپنے قوم کو بالعموم اور قبائل، محلے اور کنبے کو بالخصوص فائدہ نا صرف پہنچاتے ہیں بلکہ وہ تاریخ کو پلٹنے کی طاقت رکھنے والے فیصلوں کو اپنے کردار سے جوڑ کر انہیں قوم، ملک اور وطن کیلئے باعث نجات بناتے ہیں۔ یقیناً لیڈر بنائے نہیں بلکہ حالات اور آزمائش کی گرم تپش کی مار کو برداشت کرتا ہوا ثابت قدمی سے عبور کرنے والا ہی امر اور لا فانی شخصیت کا مالک اور لیڈر کہلانے کا اہل ہوتا ہے۔ بلا کسی شبے کے بلوچ تحریک ایسے بہت سے سپوتوں سے بھرا ہوا ہے جو تاریخ میں تحریکوں کو نہ صرف چلا کر دکھایا ہے بلکہ انہوں نے اپنے آپکو حقیقی معنوں میں قوم کا اور مادر وطن کا فرزند ثابت کر دکھایا ہے۔

ان بلند اور برز ہستیوں کی فہرست کو اگر اوپر سے دیکھا جائے تو نہ صرف بلوچ تحریک میں بلکہ دنیائےانقلاب کی کسی بھی جدوجہد میں اہم اور بلند ترین مقامات پر جنرل اسلم کا کردار براجمان ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ میں اپنی ناقص علم اور سوچ کے ساتھ شاید اپنے قلم کو اپنے جوانی کے زور سے مجبور کروں کے اس عظیم ہستی کے کردار کی عکس کشی کرے لیکن اس مادر وطن کے حقیقی وارث کے کردار کو قلم بھی جھک کر اور رک کر مدھم مدھم انداز میں لکھنے پر مجبور ہے کہ شاید جو لکھ رہا ہوں وہ کہیں گستاخانہ اور بے ادبی کے زمرے میں نہ آئے جو کچھ اس بلوچ فرزند کے کردار پر لکھ رہا ہوں۔ وہ شخص جس نے اپنے مال، جان یہاں تک کہ اپنی اولاد کو بلوچ وطن پر خندہ پیشانی کے ساتھ قربان کر کے مادر بلوچستان کی ہواؤں کو ہمیشہ کیلئے اسکی خوشبو سے سجا دیا۔

دشمن اسکے محبت یا صحیح معنوں میں کہوں عشق جو وہ اپنے مادر وطن سے کرتا تھا اس سے خائف ہوکر اپنی لاچاری اور بے بسی کو آپکے اوپر خودکش کرکے ظاہر کرتا ہے۔ یہ اسلم بلوچ ہی ہے جو بلوچ کہنے کا اہل اور وارث ہے، کیونکہ بلوچ کہلانے کیلئے بلوچی “جون و پوست” کھال اور جسم کا ہونا کافی نہیں بلکہ بلوچیت ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہے، روایات کی پاسداری اور بلوچی ساخت کو برقرار رکھ کر انکو اپنے کردار کا زیور بنانے کا نام بلوچیت ہے اور وہ استاد اسلم بلوچ کے کردار میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، دشمن جنرل اسلم کو اپنے فکری ساتھیوں سے جسمانی طور پر جدا تو کر سکا پر انکے مرید آج بھی اسلم کو اپنا پیر اور رہبر سمجھتے ہیں، آج بھی انہیں حق کا پیامبر اور نشان بہادری سمجھ کر اسکے افکار کو اپنا رہنما تصور کرکے ان کے مشن کو آگے لیجارہے ہیں۔

زندگی میں امتحانات کے بادل ہوں یا طویل مدت جو 25 پچیس سال کی جہد مسلسل پر مبنی ہے کبھی اپنے قومی فرض کو اپنے سوچ کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے دور نا کیا، بقول “یوول نوہا ہرارے” نیشنلزم کے ماننے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ امر ہوتے ہیں اور انکا کردار لافانی ہوتا ہے، میں اگر نیشنلزم کو جنرل اسلم اور لافانی کو اسکی سوچ کہوں تو شاید میرا قلم مسکرا کر اسے خوشی سے نبشتہ کرے۔

کردار کو حالات کی آزمائشوں کی کسوٹی میں ڈھال کر تبدیل کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن جو اس مار کو برداشت کرکے اپنے کردار اور سوچ کو آزمائشوں کے درد کو چھونے نہ دیکر یکساں رکھتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں اس اہل ہوتا ہے کہ اسے تاریخ اپنے سنہرے اوراق کی سنہری حروف کی زینت بنائے۔

استاد واقعی میں بلوچ تھا جو بلند اور برز ہوصلوں کا نا صرف مالک تھا بلکہ وہ مادر وطن کیلئے اسکا مرید بھی تھا، فرہادبھی تھا اور قیس (مجنون ) بھی تھا۔ وطن زادے اسلم کے کردار کو اپنا مشعل اور اسکے سوچ کو اپنا کردار اور اسکی ذات کو اپنا وجود مان کر مادر وطن کی آغوش میں سوکر گذارتے ہیں اور اسلم بن کر دشمن پر قہر برساتے ہیں۔ سرمچار کی ہر گولی اسلم کا یہ پیغام دشمن کو پہنچاتی ہے کہ میں وطن کا وفادار ہوں اور اسکا بیٹا ہوں، میں بھی اسلم کا پیروکار ہوں، میں بھی اسلم کا مرید ہوں، میں بھی اسلم کا فکری اولاد ہوں، میں بھی استاد ہوں، میں بھی بلوچ ہوں، میں بھی ریحان ہوں اور میں بھی اسلم ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔