ترقی پسند طلباء تنظیموں کا اتحاد وقت کی ضرورت
تحریر: گہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونا چاہیئے کہ ماضی میں ملک بھر میں طلبا تحریکیں اور اسکی عروج و اُبھار سے تمام مظلوم اقوام کی تمام امیدیں وابستہ تھیں اورسامراجی قوتوں کے خلاف مظلوموں کی ایک منظم و نمائندہ آواز ترقی پسند طلباء تنظیمیں تھیں۔ آج ملک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں ہوں یا بڑے قدآور مدبر سیاسی رہنما ہوں، سب اسی طلبا سیاست اور کیمپس کے طلبا یونینز کے پیداوار ہیں۔ آج اگر ملک کے اکثرو بیشتر تعلیمی اداروں میں روشن خیال، ترقی پسند طلبا تنظیموں کی جگہ ملائیت اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے بغل میں پلنے والوں نے لے لیئے ہیں تو اس پہ ہمیں سوچنا ہوگا اور اس سیاسی جمود اور انتہا پسندانہ سوچ کو سیاسی طور پر کاونٹر کرنے کے لیئے حکمت عملی بنانا ہوگا۔ یہ واقعی ایک تکلیف دہ منظر ہے کہ جن فکری تربیتی اداروں اور سیاسی ماحول کے لیئے ہمارے بزرگ سیاسی قائدین نے کتنی تکلیفیں اور ایوبی و ضیاء دور کے آمر اداور میں قید و بند کی صعوبتیں سہہ کر طلبا سیاست کو زندہ رکھا۔ مگر اسوقت ہمارے سیاسی سرکل المیئے کا شکار ہیں جسے ہم سب کو ماننا چاہیئے کہ ہم اپنے دور میں اپنے طویل سیاسی و فکری جدوجہد کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بلوچستان کے طلبا پر اسلامی جمعیت طلبا کے انتہاء پسندوں کے چوتھے حملے کو کیمپس سیاست کی کمزوری اور ترقی پسند طلبا تنظیموں کے اندر باہمی اتحاد و اتفاق نہ ہونے کا سبب قراردیا تھا۔ آج ہم صرف اس پہ انحصار کررہے ہیں کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں مذہبی طلبا تنظیوں کی جانب سے لبرل و سیکولر، روشن فکر طلبا کیساتھ کوئی لڑائی ہوگی تو ہم ہمدردی کی بنیاد پر ملک بھر میں پریس کلبوں کے سامنے اور سوشل میڈیا پر مسئلے کو اُچھالیں گے مگر ہمیں اس نوبت کا ہرگز انتظار نہیں کرنا کہ اگر ہم کسی کیمپس کے اندر مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے کمزور ہیں، اگر کوئی مسئلہ پیش آیا تو بعد میں وقتی احتجاج کرکے ردعمل کا اظہار کریں اور مسئلہ ختم ہوگا۔ بلکہ اب وقت اور حالات بھی یہی بتا رہے ہیں کہ ہمیں اسکے برعکس سوچنا اور حکمت عملی بنانا ہوگا، ایسی حکمت عملی کہ ماضی کے طلباء طاقت کا مالک ہوں، طلبا پہ ہاتھ اُٹھانے سے پہلے جنونی ہزار بار سوچیں۔ یہ نوبت ہی نا آئے کہ اپنے مذہبی جنونی طاقت کے بارے میں سوچیں۔ اسکا مستقل حل نکالا جائے۔ جب تک ہم اپنے تمام تر وقتی اختلافات کو ایک طرف رکھ طلبا سیاست کو زندہ رکھنے کی عظیم تر مفادات کے بارے میں نہیں سوچیں گے تو ہم جس طاقت پہ فخر کرتے تھے اُس سے محروم ہوتے جائیں گے۔
جب تک طلبا اپنے طاقت کا اندازہ خود نہیں لگائیں گے، تو اسکی طاقت سے کوئی آشنا نہیں ہوگا اور نہ ہی اسکی سیاسی و تنظیمی طاقت سے کوئی ڈرتا ہوگا۔ بلوچستان اور ملک بھر کے طلبا کو ماضی کی تنظیمی جدوجہد اور قائدین پر فخر کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کو تاریخ سے کوئی نہیں مٹاسکتا کہ طلبا سیاست چاہے وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہو، این ایس ایف، یا ڈی ایس ایف یا دیگر ترقی پسند طلبا تنظیمیں ہوں انکے تربیتی سرکلوں سے بے شمار انقلابی و نظریاتی سنگت پیدا ہوئے ہیں اور قوموں کے حقوق کے جدوجہد کے پاسباں انہی سیاسی اداروں کے مرہون محنت ہیں۔ قوموں کی قومی سوال کا مسئلہ ہو یا ملکی سطح پر بحالی ِ جمہوریت کی تحریک ہوں، سب کے شریکِ سفر اور رہبر انہی سرکلوں کے جیالے تھے۔
قوم کے نوجوان تنظیموں میں اپنی وجود کی جنگ دفاعی پوزیشن سے لڑیں تو ہمیں سوچنا ہوگا اور بروقت اُٹھنا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ ہمارے زیست ومرگ کا سوال ہے۔ اگر ہم جس طاقت کا مظاہرہ حالات کے بعد کرتے ہیں اگر ہم اسی طاقت کو منظم انداز میں حکمت عملی کے تحت آرگنائز کر کے طلبا یونین کے بحالی کے لیئے ملک بھر میں منظم سیاسی تحریک کا آغاز کریں تو میں سمجھتا ہوں بہتر اور کامیاب نتائج برآمد ہوں گے۔ بجائے وقتی طاقت اور پریشر کے، مسقتل طور پر ایک منظم طلبا قیادت بن کر اُبھریں تو ہمیں وزن سے سُنا جائے گا اور ہماری رائے کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اس سے شاید آپ سنگت مجھ سے اختلاف رکھ سکتے ہیں اور اختلاف رکھنے کی آزادی اور گنجائش بھی ہے مگر میرے نزدیک اسوقت مذہبی جنونیت اور مذہبی جماعتوں کے حامی طلبا تنظیمیں اپنے نعرے کے پیچھے زیادہ متحرک ہیں، بےشک وہ ہزاروں میں ہوں گے اور معاشرے میں ہمارے ترقی پسند سوچ کے حامل لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے مگر اسوقت نظر یہی آرہا ہے کہ ہم آپس میں چھوٹی سی چھوٹی مسائل پہ اؒلُجھن کے شکار ہیں اور بٹے ہوئے ہیں، ہماری طاقت ہماری نظریاتی ہم آہنگی اور تنظیمی یونیٹی تھی اگر یہ کمزور ہوتا جا رہا ہے تواسکے اثرات براہے راست ہماری طلبا سیاسی جدوجہد پر آکر ہمیں مزید کمزور کرنے کی سبب بنیں گے۔
اگر ابھی ہم کل کی 70, 80 کی دہائی کی طلبا تحریک کو زندہ رکھنے کی پوزیشن میں نہیں تو کم ازکم کل جو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بلوچستان کے طلبا پر تشدد کے خلاف ملک بھر میں نکالی گئی منظم ریلی و احتجاج کو تو برقرار رکھیں اور یہی تحریک آگے چل کر انہی ماحول کو پیدا کرے گا جس پہ ہم فخر کرتے آرہے ہیں۔ اب اس کاروان کے سنگتوں سے یہی تقاضہ ہے کہ وہ اس تحریک کی پرورش جاری رکھیں گے۔ منظم تنظیمی ڈھانچہ طلبا تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ اسوقت ہم سب ترقی پسند جمہوری لوگوں نے اپنی اپنی میدان میں ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی، لکھاری لکھیں، مقرر بولیں، سیاسی کارکن جدجہد کو تیز کریں تب جا کر ہم ایک منزل کو پہنچ سکیں گے وگرنا اس سے بھی بھیانک صورت حال پیدا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔