26 اگست: بلوچستان کا نائن الیون – عابد میر

591

26 اگست: بلوچستان کا نائن الیون

تحریر : عابد میر

دی بلوچستان پوسٹ

اکیسویں‌ صدی کے آغاز میں‌ بالغ ہونے والی نسل، ’نائن الیون کے بعد دنیا بد ل گئی‘ کا راگ سنتے سنتے باشعور ہوئی۔ سن 2001ء کے ستمبرکی 11 تاریخ کو امریکہ کے ٹوئن ٹاورز سے ٹکرانے والے دو جہازوں نے امریکہ سمیت دنیا کی سمت بدل دی، نئی صف بندیاں قائم ہوئیں۔ کل کے حریف‘ حلیف اور حلیف آج کے حریف بن گئے۔ مجاہدین کو سر آنکھوں پہ بٹھانے والا امریکہ ان پہ چڑھ دوڑا، اور ڈالروں کو کل تک نعمت قرار دینے والوں کے نزدیک اب یہ حرام قرار پائے، وغیرہ وغیرہ۔

اور پھر ’نائن الیون‘ معاصر بیانیے کا مقبول ترین استعارہ قرار پایا۔ کیا کچھ نہ لکھا گیا اس کے تناظر میں۔ کیسی قتل و غارت گری ہوئی اس کے پس منظر میں …… ہم یہ سب پڑھتے تھے، سنتے تھے، مگر ہم دنیا کے تبدیل ہو جانے کے مفہوم سے کچھ آشنا نہ تھے۔ ہم نہ جانتے تھے کہ کیسے ایک واقعہ آپ کے دوستوں کو دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کر دیتا ہے، کیسے ایک واقعہ کے پس منظر میں اچھائی اور برائی تک کے مفہوم بدل جاتے ہیں، نعرے بدل جاتے ہیں، معروض بدل جاتا ہے، معروضی حالات بدل جاتے ہیں، خیالات بدل جاتے ہیں …

اور پھر سن 2006ء کا 26 اگست کا دن آیا۔ بلوچستان میں ایک پہاڑ گرا، اور سارا بلوچستان بدل گیا…… نعرے بدل گئے، معروض بدل گیا، معروضی حالات بدل گئے، ہم سب کے خیالات بدل گئے۔ جمہوری جدوجہد کا باب تمام ہوا، عقل‘ دانش‘ فہم ناکام ہوا۔ بندوق کے راج نے جنم لیا، ایک نئے سماج نے جنم لیا۔ سو‘ 26 اگست ’بلوچستان کا نائن الیون‘ ٹھہرا۔

اس روز‘ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے سنگم پہ واقع تراتانی نامی پہاڑ نواب اکبر بگٹی نامی اَسی سالہ بلوچ رہنما کے اوپر کیا گرا، پاکستان کا وفاق اس کے ملبے تلے دب کر رہ گیا۔ یہ نقصان محض پاکستان میں وفاقی و جمہوری سیاست کا نہ تھا، بلکہ بلوچستان میں سرداری اور سرداروں کے خلاف پیہم برسرپیکار سیاسی کارکنوں اور لکھاریوں کا بھی تھا، جن کی برسوں کی جدوجہد کو ایک طالع آزما نے ایک پیرسن کے لہو میں بہا دیا۔ اس ایک قتل کے نتیجے میں بلوچستان میں سردار ایک بار پھر طاقت ور ہو گئے۔ بلوچستان کے جابر سرداروں نے اپنے مکروہ چہرے اکبر خان کی لاش کے پیچھے چھپا لیے۔ بلوچستان ایک بار پھر ہمیشہ سے بکاؤ سرداروں کے رحم و کرم پہ چلا گیا۔

خود سن ستر کی دَہائی میں بلوچ مزاحمتی تحریک کو بہ زورِ طاقت کچلنے والا اکبر خان، اپنے لہو کا خراج دے کر اسی مزاحمتی تحریک کے نئے مرحلے کا سرخیل قرار پایا۔ پیران سالی میں اس کی موت نے جھٹ پٹ بلوچوں کی محدود جدوجہد کو سرحدوں کے اِس پار سے اُس پار تک پہنچا دیا۔ شاعر اس کی شان میں گیت لکھتے رہے، فن کار اس کے گن گاتے رہے، ماؤں نے اپنے بچوں کو اس کا نام دینا شروع کر دیا۔ عمر بھر ڈیرہ بگٹی کی سیاست کرنے والا‘ قوم پرستوں کو پیٹ پرست کہنے والا‘جابر سردار کے طور پر معروف اکبر خان پلک جھپکتے میں بلوچوں کی قومی تحریک کا نمایاں ترین چہرہ بن گیا۔

کیا پیر، کیا ملا، کیا سید، کیا سوشلسٹ …… سب کو قوم پرستی کی تند لہر نے جکڑ لیا‘ ہم سب کو ’بلوچ‘ بنا دیا، ایک سوچ بنا دیا۔ مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمامِ سیاست منہ زور جوانی کے بے لگام گھوڑے پہ بیٹھے جوانوں کے ہاتھ آئی تو بلوچ سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا۔ بندوق کی طاقت نے سب کو اپنا مطیع بنا لیا۔ جمہوری جدوجہد پہ ایسی لعن طعن ہوئی کہ سیاسی جماعتوں کی پارلیمان سے نکلتے ہی بنی۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے اس لہر کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ پارلیمانی سیاست شجرِ ممنوع ہو کر رہ گئی۔ تحریکوں کا رخ متعین کرنے والے اہلِ قلم نے بھی اپنا قلم‘ بندوق کی نال کے آگے رہن رکھ دیا۔ سو‘ اگلے ایک عشرے تک بلوچستان آگ و خون کے حوالے رہا۔

آج جب اس کھیل کو ایک دہائی گزر چکی، ہر دو اطراف سے کھلاڑی تھکے ہارے سے نظر آنے لگے ہیں۔ بلوچستان کو بیچ کھانے والے سردار ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ سبھی اپنی اپنی بولی لگا چکے۔ چند سرداروں اور مراعات کے نتیجے میں آج بلوچستان پہ ’قابو پانے‘ کے دعوے ہو رہے ہیں، بلوچ قومی تحریک کو مٹا دینے کے اعلانات ہو رہے ہیں ……

چلیے ٹھیک صاحب‘ مگر یہ تو فرمائیے کہ تاریخ کے کلینڈر سے 26 اگست کو کیسے مٹایا جا سکے گا۔ جب بھی 26 اگست آئے گا ہمارے بچے ضرور ہم سے اس کا پس منظر دریافت کریں گے۔ محبِ وطن بلوچوں سے لے کر غداروں تک کی نسل اس دن کا حوالہ جاننے اور بتانے پر مجبور ہو گی۔

26 اگست آیا اور گزر گیا۔ یہ ہر برس آئے گا اور گزر جائے گا، لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ اس روز بلوچوں اور وفاقِ پاکستان کے درمیان پڑی دراڑ کے نتیجے میں پیدا ہوئی اجنبیت مٹانے کو کتنی مداراتیں درکار ہوں گی، پھر سے آشنا بننے کو کتنی ملاقاتیں چاہیے ہوں گی …… تراتانی کے پہاڑ پہ پڑنے والے خون کے دھبے دُھلنے اور اِس وطن میں بے داغ سبزے کی بہار دیکھنے کو امن کی کتنی برساتوں کی ضرورت ہو گی!!


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔