گیارہ اگست یوم آزادی
تحریر: نور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تاریخ میں گیارہ اگست نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دن بلوچ سر زمین کو سامراج برطانیہ کے چنگل سے آزادی نصیب ہوئی۔ بلوچستان کی آزادی کو پاکستان نے بھی تسلیم کیا تھا، لیکن دھوکہ دہی، چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے بلوچ سر زمین پر ایک مرتبہ پھرغیر قابض ہوگئے، لیکن ہمیں ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے غلامی ایک مرتبہ پھر ہمارا مقدر بن گیا، کیا ہم کمزور تھے، یا ہم میں سیاسی شعور کی کمی تھی کہ ہم برطانوی اور پاکستانی گٹھ جوڑ کو سمجھنے میں ناکام رہے حالانکہ پاکستان نے قبضہ گیریت کے دوران قلات پر فوج کشی کرکے 27 مارچ 1948 کو قبضہ کرلیا تھا۔
اس قبضے کے خلاف بلوچ عوام کی جدوجہد کا آغاز پرنس کریم آغا خان اور قبائلی رہنماؤں نے شروع کیا تھا جو ہنوز جاری ہے۔
ان عوامل کو غور سے دیکھنا ہوگا کہ ہماری دفاع میں ناکامی کی کیا وجوہات تھیں، حالانکہ برطانیہ کی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد اور آزادی حاصل کرنے کے عمل کو مجموعی طور پر بلوچ قوم ایک فخر یہ انداز میں پیش کرتی ہیں کہ ہزاروں قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے آزادی حاصل کی لیکن صرف نو مہینے کے عرصے کے بعد آزادی ہم سے چھن گئی اور ہم پھر غلامی کی زنجیروں میں دھکیل دیئے گئے۔
دفاع میں ناکامی کی وجوہات کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے لیڈر شپ کا فقدان اہم وجہ تھی، جس نے ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ میر احمد یار خان میں اپنے اسلاف کی طرح بہادری اور بروقت فیصلے کی صلاحیت موجود ہی نہ تھی اور وہ سیاسی لیڈر کے بجائے مذہبی لیڈر کا کردار ادا کررہا تھا۔ وہ کہتے ہیں نہ سیاست مفادات کا کھیل ہے لیکن ہمارے لیڈران سیاست کے داؤ پیچ سے واقف نہ تھے جس کی وجہ سے ہم اپنی آزادی سے محروم ہوگئے
برطانوی برصغیر سے انخلاء کے بعد ایک ایسے وفادار کی تلاش میں تھے جو انکے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکے اور ایسے میں ہندوہستان کو تقسیم کرنے کے لئے انگریزوں نے سازش کے ذریعے ہندو مسلم کارڈ بھرپور استعمال کیا حالانکہ مسلم لیگ جو پاکستان کی آزادی کی دعویدار تھی اسکے قیام کا مقصد صرف ہندوہستان میں مسلم حقوق کا دفاع کرنا تھا اور قرارداد پاکستان میں بھی پاکستان کی آزادی کا مطالبہ شامل نہ تھا لیکن جب برطانیہ نے تحریک میں تیزی دیکھی تو ہندوہستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور اپنے مفادات کے لئے ہندوہستان کو پاکستان اور بھارت کے نام سے تقسیم کیا تاکہ پاکستان انکے مفادات کو تحفظ دے سکے۔ جب پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا تو اسے مکمل برطانوی حمایت حاصل تھی کیونکہ پاکستانی دھمکی کے بعد برطانوی حکومت نے بلوچ حکومت کو اسلحہ فروخت کرنے کے بجائے شش و پنج و دھوکہ دہی سے کام لیا۔
بلوچستان میں سنڈیمن دور کے بعد سے سیاست میں قبائل کو اہمیت اور سرداروں کو قوت و طاقت عطا کی گئی، سرداروں نے اپنے مفادات کے لئے انگریزوں اور کبھی جناح کی جھولی میں خود کو ڈالنے کا فیصلہ کیا اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کی جگہ قبائلی علاقوں میں سردار آزاد حیثیت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں حالانکہ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے پہلے انتخابات میں بیشتر سرداروں کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔
خواتین کی تحریک میں عدم شمولیت، سیاسی پارٹیوں کی اہمیت میں کمی، سازشوں اور مذہبی چالبازیوں کی وجہ سے بلوچستان آج بھی سیاسی حوالہ سے متحرک نظر نہیں آتا کیونکہ جو سیاسی پارٹیاں آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہیں ریاست نے اپنے ہمنواؤں کے ہمراہ انکے راہ بند کردئیے ہیں جبکہ پارلیمانی سیاست کرنے والے خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار ہے جو انکی ایماء پر نام نہاد قوم پرستی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان تمام وجوہات و عوامل کو تلاش کرنا ایک سیاسی ورکر کی ذمہ داری ہے کیونکہ عوامل کی نشاندہی کے بغیر ہم اپنی کمزوریوں کو سامنے نہیں لاسکتے، اپنی کمزوریوں پر تنقید کرکے انہیں بہترین پالیسیوں میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری سیاسی طالب علموں اور پارٹیوں پر ہے۔
ہم موجودہ دور میں بھی تیسری لہر میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں حالانکہ موجودہ دور کا انسان ایک نیا انسان ہے جو تیسری لہر کی پیداوار ہے لیکن ہم تبدیلی کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں اور اپنی کمزور پالیسیوں کو سیاسی اقدار و روایات کے بجائے بلوچ سماجی اقدار و روایات میں تلاش کرتے ہیں۔
گیارہ اگست ایک تاریخی و اہمیت کا حامل دن تھا اس دن کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہم برسر پیکار ہے اور اسکے لئے ہمیں قربانیوں، مہارت اور شعوری جدوجہد سے تحریک کو آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ آزادی صرف اپنے ماضی پر فخر کرنے سے نہیں ملتی بلکہ علمی و شعوری جدوجہد اور قربانی کے امتزاج سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔
جس طرح نمیران ریحان بلوچ نے گیارہ اگست کے مقدس دن بلوچ سرزمین پر چینی انجئنیروں پر فدائی حملہ کرکے اس دن کو یادگار بنایا تھا اسی جذبے اور قربانی اور شعوری فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔