گیارہ اگست تجدید عہد کا دن ہے – بی این ایم

284

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ گیارہ اگست کو بلوچستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں بی این ایم کی جانب سے کانفرنس اور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا جرمنی کے شہرفرینکفرٹ اوڈے میں کانفرنس جرمنی ہی کے شہر مونسٹر آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں احتجاجی مظاہرہ کے علاوہ یونان میں ایک ریفرنس پروگرام کا انعقادکیا گیا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ اوڈے میں بلوچستان کی یوم آزادی کی مناسبت سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا-

کانفرنس سے بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ، ممتاز ادیب و دانشور ڈاکٹر نصیر دشتی بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ انٹرنیشنل فرینڈز آف سندھ کے صدر سلیم ثنائی بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری عبداللہ عباس بلوچ بی این ایم کے سابق فنانس سیکریٹری حاجی نصیر دشتی بی آر پی جرمنی کے نائب صدر عادل بلوچ اور بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے خطاب کیا پروگرام کے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض بی این ایم جرمنی زون کے نائب صدر دوستین بلوچ نے انجام دیئے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حمل حیدر بلوچ نے کہا کہ گیارہ اگست ہمیں اپنی آزاد وطن کی یاد دلاتا ہے، جسے آزادی کے بعد جلد ہی پاکستان نے بزور شمشیر قبضہ کرکے ہمیں غلام بنایا اس غلامی کے خلاف اور اپنی آزادی کیلئے بلوچ قوم دو دہائیوں سے پاکستانی قبضہ کے خلاف جد و جہد میں مصروف عمل ہے پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین دور سے گزر رہا ہے پاکستانی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے اور پاکستان دنیا میں تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے-

حمل. بلوچ نے کہا یوں پاکستان کسی بھی وقت متزلزل ہو کر ٹوٹ سکتا ہے مگر ہمیں اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بلوچ قوم کو آزادی سے پہلے آزاد وطن کی تیاری کرنی چاہیئے اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ماضی کی طرح اپنی آزادی کو برقرار نہیں کر پائیں گے انیس سو سینتالیس میں ہم چند مہینے آزاد رہے مگر اب ہمیں چھ ہزار سال کی آزادی کیلئے کام کرنا چاہیئے اس جد و جہد کو کچلنے کیلئے پاکستانی فوج بلوچ قوم پر غیر انسانی مظالم ڈھا رہا ہے بلوچ سیاسی ورکروں کی گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنا جیسا ظلم قابض فوج کی جانب سے ایک معمول بن چکا ہے اس کے باوجود یہ جد وجہد بیس سالوں سے جاری ہے۔

ڈاکٹر نصیر دشتی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قومی آزادی کیلئے بلوچ نوجوانوں کا اس طرح اکھٹا ہونا نہایت خوش آئند ہے نوجوانوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی جدو جہد جاری رکھنا چاہیئے بلوچستان کی آزادی کے بعد اسے زبردستی غلام بنانا ایک عالمی سازش تھی دوسری جنگ عظیم کے بعد برصغیر ہند کی تقسیم اور برطانیہ کی انخلا سے برطانیہ کو یہاں کو چوکیدار کی ضرورت تھی جسے پاکستان کی صورت میں وجود میں لایا گیا بلوچستان کی آزاد حیثیت سے یہ طاقتیں خائف تھیں کہ بلوچستان روس و دوسری علاقائی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر مغرب کی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے ساتھ اس آزادی کو کھونے میں خان قلات کی کمزوری اور غلطی بھی کار فرما تھی۔

انہوں نے کہا کہ خان قلات نے مقامی سرداروں اور اپنے ایوانوں کے نمائندوں کے مشورے پر عمل نہیں کیا جنہوں نے کہا کہ بلوچستان پر حملہ ہوگیا ہے ہم آپ کو سرلٹ پہچائیں گے جہاں آپ افغانستان میں اپنے والی رشتہ داروں سے مل کر روس جائیں اور وہاں سے جنیوا جا کر نئی وجود میں آنے والی اقوام متحدہ سے رجوع کریں مگر خان قلات نے ایسا نہیں کیا اس سے شاید بلوچ قوم کو فائدہ مل سکتا تھا۔

بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ گیارہ اگست ہمیں احساس دلاتاہے کہ ہم ایک آزاد قوم تھے گوکہ ہماری آزادی کی مدت مختصر تھی اور ہم اس کی نعمتوں سے بہرہ ور نہ ہوسکے لیکن آج دیگر آزاد قومیں شاید آزادی کی اہمیت کو اُس سطح تک محسوس نہ کریں مگر ایک غلام کی حیثیت سے ہم قابض کی بربریت حیوانیت اور تشددکو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں تو ہمیں آزادی کا احساس اور اس کی قدر و اہمیت کہیں زیادہ محسوس ہوتا ہے آج بلوچستان میں کوئی ایک خاندان ایسا نہیں ہے جوکسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کے ظلم تشدد و بربریت سے متاثر نہ ہو جدوجہد میں کمٹمنٹ نہایت اہم ہوتا ہے اگر ہماری کمٹمنٹ مضبوط ہوتو دشمن کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کی شہادتیں، تشدد بربریت اور جلاوطنی قطعاََ ہماری کمزوری کا سبب نہیں بنیں گی بلکہ یہ ہمیں قوت و طاقت فراہم کریں گے کیونکہ آزادی کے حصول کے لئے معین تاریخ نہیں دی جاسکتی یہ طویل بھی ہوسکتا ہے لیکن مضبوط کمٹمنٹ ہمیں منزل تک پہنچنے میں معاون ہوتاہے یہی احساس تحریک سے ہماری وابستگی کو مضبوط کر دیتا ہے۔

انہوں نے اپنے گفتگو میں مزید کہا جیسا کہ دوستوں نے کہا کہ جدوجہد تنظیم کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتاہے ہمارے پیشرو اکابرین کی قربانیوں کی احترام اور مقام اپنی جگہ مگر جدوجہد کا عمر مختصر ہی رہا اور وہ تسلسل برقرارنہیں رکھ پائے اگر تقابلی جائزہ لیں تو دشمن کی بے پناہ بربریت اور آپسی چپقلش کے باوجود یہ جدوجہد دودہائیوں سے جاری ہے اس کا کریڈٹ پارٹی اور اداروں کو جاتاہے کمی کمزوری اور خامی ہر عمل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن جدوجہدجتنا طویل ہوتا ہے تو یہی تسلسل اور دیرپا جدوجہد دشمن کو نفسیاتی شکست سے دوچار کرے گا طالبان کی مثال سامنے ہے جنہوں نے طویل جدوجہد سے امریکہ جیسی طاقت کو مذاکرات پر مجبور کردیا ہے گیارہ اگست ہمارے لئے تجدید عہد کا دن ہے ہرسال اس موقع پر بی این ایم اور بی این ایم کے کارکن اس عہدکی تجدید کرتے ہیں کہ بلوچستان کی آزادی کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مزید کہا ہمارا بنیادی فریضہ تجدید عہد، مضبوط کمٹمنٹ اور مضبوط اعصاب کے ساتھ دشمن کے تمام ظلم و جبر کو برداشت کرکے اس تحریک کو توانائی دینا ہے آج میں واضح کرتا ہوں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ اصولی بنیادوں پر اشتراک عمل اور اتحادکے لئے پہلے بھی پیش پیش رہا ہے اور آج بھی بلوچ سرزمین سے ایمانداری آزادی سے کمٹمنٹ و واضح موقف دشمن سے نرمی یا سمجھوتہ کی خوائش جیسے آلائشوں سے پاک پارٹی اور تنظیموں سے صرف اورصرف بلوچستان کی آزادی کے لئے اشتراک عمل اور اتحاد کے لئے تیار ہے۔

اس موقع پر موجود سلیم ثنائی نے کہا کہ ہمارا دشمن مکار اور شاطر ہے جس نے کئی دفعہ بلوچوں اور سندھیوں کو لڑانے کی کوششیں کی ہیں مگر وہ اپنے اس مذموم مقصد میں ناکام ہوچکا ہے سی پیک جیسے مسترد کئے ہوئے منصوبے پر پاکستان نے ایک سازش کے تحت بدین اور تھر سے سندھیوں کو بھرتی کرکے بلوچستان بھیجا تاکہ بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے سندھی ہی مارے جائیں اور دونوں قوموں کی تعلقات میں دراڑ پیدا ہو جس سے وہ آپس میں لڑیں اس میں بلوچ اور سندھی قوم نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا صبا دشتیاری سے لیکر آج کے دانشور بلوچ قومی تحریک کی طاقت ہیں سلیم ثنائی نے کہا کہ سندھ میں غیر مقامی لوگوں کو آباد کرکے پاکستان سندھی قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں کر رہا ہے بلوچ تحریک آزادی میں سندھی قوم بلوچ قوم کا ساتھ ہے۔

بی ایچ آر او کے جنرل سیکریٹری عبداللہ عباس نے کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر یہاں کے باشندے زندگی کے تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اسکول اور ہسپتال ناپید ہیں بلوچستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات پاکستان اور خطے کے دیگر علاقوں کی نسبت سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح حمل کے دوران خواتین کی شرح اموات ترقی پذیر ملکوں سے بھی زیادہ ہے مظالم کی انتہا یہ ہے کہ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں سینکڑوں مارو اور پھینکو اور جعلی مقابلوں میں مارنے کا شکار ہو کر شہید ہوچکے ہیں اس میں پاکستانی فورسز کے ساتھ اس کے پراکسیوں نے بھی کئی بلوچوں کا قتل کیا ہے۔

بی این ایم کے سابق مرکزی فنانس سیکریٹری حاجی نصیر بلوچ نے کہا کہ آزادی ایک نعمت ہے لیکن ہم اسے برقرار نہیں رکھ سکے بدقسمتی سے ہم سابقہ آزادی کی تحریکوں کو بھی زیادہ دیر تک نہیں چلا سکے ہیں اس کی اہم وجہ تنظیموں کا نہ ہونا ہے موجودہ تحریک کا بیس سالوں سے تسلسل جاری ہے یہ پارٹی اور اداروں کی مرہون منت ہے آزادی کے لئے بین الاقوامی برادری یا عالمی اداروں کی حمایت لازمی ہوتاہے لیکن ممالک اور عالمی ادارے کسی ایک شخص پر بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ بلوچ کے پارٹی اور تنظیم کتنے مضبوط اور منظم ہیں آج بی این ایم جس مقام تک پہنچاہے اس کے لئے ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے آج تحریک کو بی این ایم بی ایس او اور دوسری جماعتیں ادارتی شکل میں آگے لے جا رہے ہیں تو ہمیں امید ہے کہ ہم اپنی منزل کو جلد یا بدیر پہنچ کر ایک مضبوط آزاد بلوچستان کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے پاکستان ہمیشہ یہی کہتا رہا ہے کہ بلوچستان میں دو تین سرداروں کا مسئلہ ہے مگر آج یہ تحریک بیس سال پوری کرنے والا ہے۔

اس موقع پر بی آر پی کے عادل بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم ایک تاریخی قوم ہے جو مہر گڑھ سے شروع ہوتی ہے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو بلوچستان کی آزادی کو پاکستان نے قبول کیا تھا مگر جلد ہی خود اس پر قبضہ کر لیا انہوں نے پٹیشن پیش کی جس میں قلات کے حکمرانوں کی تاریخ برٹش سرکار سے معاہدوں اور مختلف دستاویزات پیش کیں۔

بی این ایم جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے گیارہ اگست کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مہمانوں کو شکریہ ادا کیا۔ آخر میں کانفرنس میں نو قراردیں پیش کی گئیں جنہیں شرکا نے متفقہ منظور کیا۔ قرارداد کی تفصیل یوں ہے-

۱۔ پاکستان بلوچستان سے اپنی فوج نکال لے اور بلوچستان کی آزادی قبول کرے۔

۲۔ بلوچ قومی جینو سائیڈ کے ساتھ بلوچ کلچرل جینوسائیڈ کی جا رہی ہے اقوام متحدہ اور مہذب قومیں پاکستان کو بلوچ نسل کشی سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

۳۔ ہم سی پیک اور اس سے جڑے منصوبوں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ استحصالی منصوبے ہیں اور ان کی آڑ میں بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

۴۔ بلوچ قوم کے ساتھ پاکستان سندھی، پشتون اور دیگر محکوم قوموں کی انسانی حقانی پامالی کر رہا ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

۵۔ پاکستان عیسائی، ہندو اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کیلئے مجبور کر رہا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

۶۔ ہم بلوچستان اور خطے میں مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں پاکستان براہ راست ملوث ہے۔

۷۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کی خفیہ جیلوں میں بند بلوچوں کی بازیابی کیلئے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔

۸۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ اقوام متحدہ بلوچستان میں پیس کیپنگ مشن بھیجے تاکہ بلوچ نسل کشی کو روکا جا سکے۔

۹۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچ، سندھی، پشتون اور دیگر محکوم قومیں پاکستان کے خلاف مشترکہ جد و جہد کریں۔

ترجمان نے کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پروگراموں کا انعقاد کیاگیاجس میں بی ایس اوآزادکے کارکناں کا تعاون شامل تھا بلوچستان کے علاوہ آسٹریلیا کے شہر میلبورن اور جرمنی کے شہر مونسٹر میں احتجاجی مظاہرہ اور گیارہ اگست یوم آزادی کے حوالے سے آگاہی مہم کا انعقاد کیا گیا مہم میں بی این ایم کے کارکنوں نے یوم آزادی اور پاکستانی قبضہ پر مقامی لوگوں کو آگاہی دی یونان میں ایک ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں یونان کے کارکنوں نے شرکت کی۔