بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3683دن مکمل ہوگئے۔ سندھ سے آئے ہوئے وکالت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کیا جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقعے پر ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک ممتاز قانون دان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے کہا تھا کہ ملک میں باقاعدہ قانون موجود ہے، ہمارے ملک میں آئین کی پاسداری ہوتو لوگوں کو فورسز اور ایجنسیوں کے قبضے سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا تھا کہ 1957میں میں نے خود شاہدہ عباسی کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ خفیہ اداروں کو عدالتیں ہائے عظمیٰ طلب کی جاسکتی ہے اور ان اداروں کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ لاپتہ افراد کے بارے میں بنائے جانے والے جسٹس کمال منصور کمیشن کے فیصلے کو سامنے لائے تاکہ اصل حقائق کا پتہ چلے اب تک لاپتہ افراد کے بارے میں جسٹس کمال منصور کمیشن کے فیصلے سے عوام کو آگاہ نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے،آئین کے آرٹیکل دس کے تحت گرفتار کیئے جانے والے شہری کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے کسی بھی شہری کو تین ماہ سے زیادہ رکھے جانے پر ریو بورڈ کے سامنے پیش کرکے مزید گرفتاری کے احکامات لیے جاسکتے ہیں بغیر ریو بورڈ کے اجازت کے کسی بھی شہری کو قید میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ملک کی سلامتی و بقاء کے لیے تینوں صوبوں سے انصاف کیا جائے، لاپتہ افراد کے بارے میں سختی سے پوچھا جائے، موجودہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ان کے بارے میں بھی پتہ کریں کہ ہزاروں افراد کی لاشیں ملی ہے آئین کے آرٹیکل دس کے تحت کسی بھی شہری کو وجہ بتائے اور ایف آئی آر درج کیئے بغیر رکھنا سنگین نوعیت کا جرم ہے۔