چھبیس اگست دو ہزار چھ اور بلوچ تحریک – کوہ روش بلوچ

270

چھبیس اگست دو ہزار چھ اور بلوچ تحریک

تحریر: کوہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

26اگست 2006وہ دن تھا جو بلوچوں کے سیاسی منظر نامے کو بدلنے والا دن تھا اور صبح کی پہلی کرن اپنے ساتھ بہت ساری تبدیلیاں لے آنے والا تھا، ڈیرہ بگٹی سے لے کر گوادر تک سب کماش اور نوجوانوں کو احساس دلانے والا دن تھا کہ آپ لوگ غلام ہو غلامی اور غلام کیا ہے؟ غلام اور غلامی کی زندگی کیا ہوتی ہے اور آزادی کس کو کہتے ہیں اور کیا ہوتا ہے ان تمام چیزوں کو 26اگست ایک کھلی کتاب کی طرح سب سامنے رکھنے والا تھا۔

یقیناً بلوچ کئی دہائیوں سے اس بات کا دعویٰ کررہے تھے کہ پاکستان نے بلوچوں کو غلام بنایا ہوا ہے اور بلوچستان پہ قبضہ کرچکا ہے مگر اکثر بلوچ نوجوان اس بات سے واقف ہی نہیں تھے غلامی کیا ہے؟ اور ہم پہ پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے اور بلوچ نوجوان بغیر کاغذات والے گاڑی اور بغیر لائسنز کے گاڑی چلانے کو اپنی آزادی سمجھ کر خوش تھے کہ ہم آزاد ہیں پاکستان تو بلوچوں کو انکو انکی اصل تاریخ پڑھا کر اپنے پیروں پہ کھلاڑی مارنا ہی نہیں چاہتا تھا اور بلوچ اس کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے تھے، نوجوانوں کے علاوہ جو بھی پرانے کامریڈ اور بزرگ شخصیات تھے وہ یاسین اور کہور کے دھوکوں اور بی ایس او کے ابھرتی ہوئی تاریخ اور پھر سے زوال پذیر ہونے سے اس طرح گھبرائے ہوئے تھے کہ وہ سیاست اور سیاسی باتوں سے اس طرح گریزاں تھے جس طرح شوگر کی مریض شکر سے ہوتا ہے۔

نوجوانوں کا سیاست اس وقت ہاسٹل اور ہاسٹل کمروں سے زیادہ کچھ تھا ہی نہیں اور وہ بھی کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں اور چھوٹے شہروں میں صرف کالجز تک محدود تھے اکبر خان کے شہادت سے پہلے اگر ہم نوجوانوں کی سیاست پہ ہلکی نظر دوڑائیں ہمیں دیکھنے میں آئے گا جو نوجوانوں کے سیاسی تنظیمیں تھے، اس وقت ان میں مینگل گروپ کا بی ایس او سب سے مظبوط تھا اور بی ایس او آزاد کو کچھ ہی سال ہوئے تھے جو محراب گروپ سے الگ ہوچکا تھا اور اس کو مقابلہ کرنے کے لئے بہت وقت درکار تھا اور سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ اور سینٹ کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں رہے تھے، اکبر خان کے شہادت سے کچھ وقت پہلے بی این ایم بلوچستان نیشنل موومنٹ سے بلوچ نیشنل موومنٹ بنا تھا، مگر کسی پارٹی کو ایک اور نظریے کے ساتھ میدان میں آکر سیاست کرنا اور اپنے آپ کو منظم کرنے کے لئے بہت وقت درکار ہوتا ہے، ہاں اگر بی این ایم 2009کے بعد مظبوط ہوا تو وہ اکبر خان اور غلام محمد اور ساتھیوں کے شہادت اور انکے بہائے ہوئے خون کی بدولت تھا۔

آج جس طرح کا سیاسی منظر نامہ ہے بلوچستان میں یہ تمام انہی شہیدوں اور نوجوانوں کے قربانیوں کے بدولت ہے۔ بغیر خون بہائے یہ تمام چیزیں ممکن ہی نہیں تھے، جس طرح نوجوان پہلے ہاسٹل کمروں اور چھوٹے موٹے چیزوں کے لئے دست و گریبان تھے اور جو نوجوان چھوٹے سے چیز سے خوش ہوتے تھے، وہی نوجوان اکبر خان کی شہادت کے بعد قوم اور قومیت سے اس طرح واقف ہوئے کہ وہ دربدر کی ٹھوکریں سہنے اور تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوئے اور بلوچ تحریک آزادی کی تحریک میں دھڑہ دھڑ شامل ہوتے گئے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے سر پہ کفن ہو کر میدان میں آگئے، منظم اور مظبوط انداز میں دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔