پرانی فرسودہ عمارتیں اور نئی پرآرائش اسکیمیں – نادر بلوچ

299

پرانی فرسودہ عمارتیں اور نئی پرآرائش اسکیمیں

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لکھنا اور لکھت سے اپنے جذبات دوسروں تک پہنچانے کا طریقہ زمانہ قدیم سے رائج موزوں طریقہ کاروں میں سے ایک ہے۔روز مرہ کی معمولات میں شامل موضوع، بحث و سماعت سے گذرنے والے بے شمار موضوعات پر دماغ سے نکلتے ہوئے سوالات کے قطاروں میں سے کسی ایک سوال کا چناو کرنا اور اس پر سمجھ کے مطابق رائے زنی کرنا راقم کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اسکی بے پناہ وجوہات میں سے اہم و کوفت کا شکار کرنے والی زبانِ تحریر ہے جو نہ موصوف کا زبان ہے نہ آباو اجداد کی رہی ہے، یہ لکھنو سے ہجرت کرکے براستہ پنجاب مظلوم اقوام کی سرزمینوں و ریاستوں کی پامالیوں اور قبضہ کے دوران منتقل ہوئی ہے اس لیے پاکستان کی قومی زبان کا درجہ رکھنے کے باوجود اردو کی بول سے سرزمینِ غلامان کی بیس فیصد آبادی طوطلاتی ہے اور اکثریت اس سے نا بلد ہے۔

ایک غلام کیلئے یہ سب کیوں عجیب و باعث اذیت نہ ہو ؟ غلامی کی کشمکش، سماجی و معاشی بدحالیوں، ریاستی مظالم کی کرب، خانہ بدوشی و مہاجرت کی زندگی، سیاسی داو پیچ پر تجزیہ نگاری، با ادب کو بھی بے ادب کردیتی ہیں۔ نہ امریکی سیاست میں ٹرمپ کے کردار کے اسرار و رموز کا پتہ چلتا ہے نہ بلوچ قومی تحریک میں جاری ہل چل دماغی گودوں کے سرخ لکیروں کو ٹھنڈا ہونے دیتی ہیں۔ سائنسی جہد کے رخ بدلتے بدلتے دیکھ کر اب تو مذہبی فرقوں کی طرح الگ الگ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں ایک ایک انچ کی لگنے لگی ہیں۔ مزید توڑ پھوڑ یقینا تقسیم کے عمل کا غمازی ہے۔ بار بار الف سے شروع کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

انسانی ضمیر کو سدھانے کیلئے ہمیشہ حل طلب مسائل و گفت و شنید کے قابل موضوعات پر سخن آرائی کیلئے سنجیدگی پیدا کرنے کیلئے قوم پرست حلقوں میں شہیوں و اسیروں کی قربانیوں کا واسطہ دیکر سیاسی کارکنوں و رہنماوں کو قوم اور قومی تحریک پر رحم کرنے کی استداء کی جاتی ہے۔ یہ سب طریقہ کار مجھ سمیت تقریباہر نااہل لکھاری و قابل، تیز و طرار شعلہ بیانوں نے استعمال کی ہے۔ نتیجہ! صفر کیوں؟ سرخ خون سستا ہوگیا یا جان کی کوئی قیمت و قدر نہیں رہی؟ یا جن کو مخاطب کیا جارہا ہے اصل میں وہ خود فیصلہ کن کردار نہیں۔ اس لیے میں نے اپنے تئی اوپر دی ہوئی موضوع کو سنجیدہ بنانے کے بجائے ایک عام سا موضوع دیکر شہداء و اسیروں کی قربانیوں کے مزاق اڑانے سے اجتناب کیا۔اب جو مرضی آپ کریں ایک نہیں دو سو مزید عمارتیں تعمیر کریں، سائنسی بنیاد پر ہوں یا قبائلی بنیاد پر، یا جنسی بنیاد پر جتنا من کرے قوم و تحریک کو تقسیم کریں۔ جب دل بھر جائے تو پھر واپس قوم پرستی و حقیقی نیشنل ازم کی جانب لوٹ آنا تو اتحاد و اتفاق کی بات بھی کر لیں گے۔

تقسیم در تقسیم کیوں، آزادی کے نام پر قوم سے قومی تنظیموں سے، سیاسی رہنماوں سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ کونسی تبدیلی! وہ قانون جو اب تک کوئی خود اپنی ذات پر لاگو نہ کر پایا؟ چلیں آپ لاگو کرنا چاہتے ہیں کر لیں مگر کیا اسکے لیے جہد میں شامل دوسرے کرداروں کو غلط سلط کہنا درست ہے؟ جھوٹ اور غلط تجزیےکی بنیاد پر خود کو الگ سمجھنے سے کیا کوئی فرد یا تنظیم، تین سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم قوم کی رہنمائی کر پائے گا؟ قومی منزل حاصل کر پائے گا؟

قوم پرست و پروگریسو سوچ، اتحاد و یکجہتی اور اجتماعی جہد کے داعی ہونے کی وجہ سے راقم خود کبھی بھی نئی سیاسی و سماجی تنظیموں کے خلاف نہیں رہا، مگر کیا ہم اب تک ان دس سیاسی پارٹیوں میں سے کسی ایک کی سوچ سے بھی متفق نہیں ہو پائے؟ کیا کوئی ایک جماعت بھی نہیں جو ٹھیک سے جذبات کی ترجمانی کر پارہی ہے، کیا اس سے قبل ہمارے پیش رو کم مساجد تعمیر کرچکے ہیں، جس میں ہمارے فرقے و ذات کے مسجد کی تعمیر رہ گئی ہے؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ آپکی سوچ اعلی، آپکی فکر اعلی، آپکے سیاسی ہمسفر اعلی ہیں اور آپ ایک جدید سائنسی و سیاسی جماعت کا اعلان کرکے قوم کی رہنمائی کیلئے آگے آتے ہیں تو بخیر آئیں، لکھ خوش آمدید آپکی تنظیم مگر کیا ضروری ہے کہ آتے ساتھ نفرت کی پرچار کر کے قوم پرستی و نینشنل ازم کی نفی کے ساتھ دوسری جماعتوں کو نااہل ثابت کرنے کیلیے تنظیم کے اعلان کے ساتھ ہی روایتی انداز اپنا کر تقیسم در تقسیم کی سوچ پر عمل کریں۔

جذبات میں اتنے بہہ جائیں کہ قوم پرستی کی روح کو فراموش کرکے اغراض و مقاصد کا اعلان کرنے کی بجائے صرف کمی کوتاہیوں پر اپنی قیمتی وقت کو خرچیں اور یہ کہیں کہ تنظیم کے منشور و اغراض کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ تو جناب عرض ہے کہ یہ اعلانات بلوچ قوم اور نوجوان ہزار بار سن چکے ہیں فرق اور تبدیلی کچھ بھی نہیں وہی مسجد وہی تنبہ صرف ملاء کی تبدیلی ہے۔

پرانے اور نئے سوچ و اداروں میں ربط پیداء کرنے کی ضرورت ہے، ماضی، حال اور مستقبل میں ربط، کامیابی کی کنجی بنتی ہے۔ تاریخ قوم پرستی کی وراثت ہے، ایک دوسرے کے وجود و صلاحیتوں و کردار سے انکاری ہونا مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔ ثقافت قومیت کا حصہ ہے۔ آج بوسیدہ ہونے والی قبائلیت بھی ماضی میں بلوچوں کی ننگ و ناموس کی حفاظت کے ساتھ صدیوں تک دفاعی سٹرکچر کا اہم ستون رہی ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں اور نہ ہی یہاں قبائلیت کا دفاع مقصود ہے۔

جدیدیت اپنانے کیلئے ضروری نہیں کہ اپنے پشتوں سے نفرت کریں بلکہ انکے کی ہوئی غلطیوں سے بچیں اور حاصل کردہ کامیابیوں سے سیکھیں۔موجودہ بلوچ قومی تحریک ستر سالہ جہد کا ثمر ہے اس میں ہزاروں کامیابیوں و ناکامیوں پر تجزئیے کیلئے کامل خلاصہ موجود ہے۔ علم رکھنے اور سیکھنے والوں کیلئے ٹنوں اور منوں کے حساب سے قیمیتی و قومی تجرباتی مواد موجود ہے۔ آپ ہزار تنظیمیں بنالیں، مختلف رنگ و روپ اپنائیں، سر اور دستار سب بدلتے جائیں، طبقاتی و علاقائی نفرتوں کو عروج پر لے جائیں، علم و عمل کے بجائے نفرتوں کی دیوار کھڑی کریں اس عمل سے ہرگز کامیابی نہیں ملےگی۔

سیاسی حمایت و کامیابی علم و عمل اور اتحاد و یکجہتی سے ممکن ہوگی، قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کرنے کیلئے قوم پرست رجحانات کی تبلیغ کرنی ہوگی۔ یہ سب قومی خواہشات کی ترجمانی کرنے سے ممکن ہوگی۔ اتحاد و اتفاق ہی یکجہتی ہے۔ قوم دوستی ہی قوم پرستی ہے، اسکے علاوہ سب نعرے ڈھکوسلا ثابت ہوں گے اپنا بھی وقت برباد ہوگا اور کیڈر بھی تذذب کا شکار ہوگی۔ مشترکہ جد و جہد و لائحہ عمل قومی منزل و کامیابی کے راستے پر گامزن کرسکتی ہے۔ مثبت سوچ و سیاست وقت کا تقاضہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔