نواب اکبر بگٹی ایک حب الوطن یا کٹر قوم پرست؟
تحریر: بلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بحیثیت لیکھک اور بلوچ میری طرح شاید اور بہت سے لوگوں کو نواب اکبر بگٹی کی سیاست کے اصولوں سے بلا شبہ اختلافات رہے ہوں، مگر اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ نواب اکبر بگٹی کی موت نے بلوچستان میں ایک نئے باب کی بنیاد رکھی یعنی تیرہ سال پہلے اسی مہینے یعنی 26 اگست 2006 سے لیکر آج تک بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے.
یہاں میں تھوڑا نواب بگٹی کے فیملی کے حوالے قارئین کو بتاتا چلوں کہ نواب اکبر بگٹی نے تین شادیاں کی تھیں، جس میں سے اس کے تیرہ اولاد تھے جن میں چھ لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں، اکبر بگٹی کے فرزندان میں سلیم بگٹی، طلال بگٹی، ریحان بگٹی ، سلال بگٹی، جمیل بگٹی اور شازوار بگٹی ہیں جبکہ لڑکیوں میں دریشاور، نازلی، دردانہ، درین، نازلی، شانازاور فرح ناز بگٹی ہیں ،نواب بگٹی کے پوتوں میں عالی بگٹی، زونگ بگٹی، میر محمد طلح بگٹی، زامران بگٹی، کوہ میر بگٹی، براھمداغ بگٹی ،شاہ زین بگٹی، گوھرام بگٹی اور چاکر بگٹی ہیں۔ ( بحوالہ وکیپڈیا) یہ تھیں نواب صاحب کے اہل و عیال اب تھوڑا بہت اُن کی سیاسی زندگی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر ہم نواب اکبر بگٹی کی سیاسی زندگی پرنظر ڈالیں تو نواب اکبر بگٹی اپنی زیادہ تر زندگی میں ایک حب الوطن پاکستانی تھے، تو دوسری طرف اپنے زندگی کے آخری ادووار میں وہ کٹر قومپرست کے روپ میں نظر آتے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی اپنے سیاسی زندگی کا آغاز 1958 کے نیشنل اسمبلی کے ضمنی انتخاب کو جیت کر کرتے ہیں اور اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان کے دور میں وزارت داخلہ میں اپنا فرائض انجام دیتے ہیں۔ اس کے بعد ذولفقار علی بھٹو کے دور میں نواب اکبر بگٹی 1973 میں گورنر بلوچستان اور آخر میں نواب اکبر بگٹی محترمہ بے نظیر کے دور حکومت میں 1989 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان بنتے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی کے مزاحمتی پہلو پر نظر دوڑائیں تو وہ پرویز مشرف کی آخری دور سے شروع ہوتی ہے ، یعنی دو ہزار چار کے آخر میں (اس سے پہلے وہ کبھی بھی بلوچ مزاحمتی تحریک کا حصہ نہیں رہے) جب نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وسائل کو بچانے کے حوالے سے ایک تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو پرویز مشرف حکومت اس تحریک کے حوالے سے اکبر بگٹی سے مذاکرات پر آمادہ ہو جاتا ہے اور پرویز مشرف اور بگٹی کے درمیان ایک میٹنگ فکس ہوجاتا ہے، جس کے لیئے اکبر بگٹی کو اسلام آباد لیجانے کے لیئے ایک فوجی جہاز سوئی میں لینڈ ہوجاتا ہے، جب نواب اکبر بگٹی سوئی پہنچتے ہیں تو جہاز کو موسم کی خرابی کا کہہ کر واپس خالی بھیجا جاتا ہے اسی وجہ سے نواب بگٹی اور پرویز مشرف کے درمیان حالات بہت کشیدگی اختیار کرجاتے ہیں، پھر ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس میں ایک فوجی میجر کیپٹن حماد کی شمولیت حالات کو مزید خراب کرتا ہے، اسی دوران حکومت کی طرف سے پھر دوبارہ مذاکرات کی پیش رفت ہوتی ہے، جس میں چودھری شجاعت حسین اور مشاھد حسین سید ہوتے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی کا قتل
اکبر بگٹی اور مشاہد حسین سید اور چودھری شجاعت کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے، اسی دوران ڈیرہ بگٹی میں فوجی جنرل پرویز مشرف اکبر بگٹی کے محل پر بمباری کرتا ہے، جس میں معصوم بچوں سمیت بیشمار لوگ قتل ہوتے ہیں۔ معصوم لوگوں کے قتل کے بعد نواب اکبر بگٹی اپنے بگٹی قبائل کے لوگوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور مسلح جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں، اسی مسلح جدوجہد کے ردعمل میں نواب اکبر بگٹی کو آج سے تیرہ سال پہلے یعنی بروز ہفتہ 26 اگست 2006 کو چلگیری بمبور و تراتانی کے پہاڑوں پہ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے میزائل سے حملہ کر کے 37 ساتھیوں سمیت قتل کردیا جاتا ہے۔
نواب بگٹی کے قتل کے ایک مہینے بعد خان آف قلات تمام بلوچ قبائل کا گرینڈ جرگے کا اعلان کرتے ہیں اور 126 سال بعد تمام بلوچ سرداروں کا ایک اور گرینڈ جرگا 21 ستمبر 2006 کو قلات میں منعقد ہوتا ہے، جس میں 85 قبائل کے سرداروں سمیت 300 قبائلی معززین شرکت کرتے ہیں، جس میں نواب اکبر بگٹی کی موت اور ساتھیوں کی اموات کی شدید الفاظ میں مذمت کے ساتھ قلات اسٹیٹ کی دوبارہ بحالی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
آج سے تیرہ سال پہلے کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ نواب اکبر بگٹی کی موت بلوچستان میں ایک ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کریگا، جو روز بروز سلگتا جائیگا۔ شاید اسی نہ سمجھنے والی سوچ کے سبب ایک فوجی جنرل نے ایک بلوچ سردار کی میت کو تالے کے ساتھ دنیا سے چھپا کے دفنایا اور سمجھا کہ رات گئی بات گئی، مگر اس فوجی جنرل کو یہ نہیں پتہ تھا اس اسی (80) سالہ بلوچ سردار کی موت بلوچ نوجوانوں میں شہادت کا رتبہ حاصل گریگا اور بلوچستان سمیت پاکستان میں ایک ایسی نہ ختم ہونے والی لاوے کی شکل اختیار کریگا جس کی تپش اور آگ اب شاید نہ بجھے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ہر روز آگ ہی آگ ہے. اسی لئے کہتے ہیں کہ پاکستان کیلئے جتنا زندہ اکبر بگٹی خطرناک نہیں تھے اتنا مرا ہوا بگٹی خطرناک ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔