دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ، آخری قسط
مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ
کوامے نکرومہ کی ایک مشہور تقریر
ترجمہ: مشتاق علی شان
کوامے نکرومہ کی ایک مشہور تقریر
I SPEAK OF FREEDOM
(کوامے نکرومہ نے افریقی اتحاد کے موضوع پر یہ مشہور تقریر1961میں کی تھی)
براعظم افریقہ پر صدیوں سے اہلِ یورپ کا تسلط رہا ہے۔ ان سفید فام باشندوں کو بصد ِ غرور یہ گمان تھا کہ وہ سیاہ فام باشندوں پر حکمرانی کریں اور سیاہ فام ان کی کفش برداری کرتے ہوئے ان کے اطاعت گزار رہیں۔ اْن کا مقصد اوردعویٰ تھا کہ وہ افریقہ کو ”مہذب“ بنانا چاہتے ہیں۔ خود کو ”مہذب“ کہلانے کی آڑ میں یہ یورپی باشندے، براعظم افریقہ کے وسائل لوٹتے رہے اور یہاں کے لٹے ہوئے عوام کو مزید کنگال کرتے رہے اوراس ناقابل تصور تباہ حالی اور مصائب کاذمہ داری بھی انھیں قرار دیتے رہے۔
ہر چند کہ قبضہ گیری او ر استحصال کایہ قصہ کافی دکھ بھرا ہے مگر ہمیں اب ان حزیں اور نا خوشگوار یادوں کو دفن کرتے ہوئے مستقبل کی جانب دیکھنا ہوگا۔ ہمیں استعماری طاقتوں سے یہ کہنا ہو گا کہ کم از کم اپنی ساکھ و عزت کی خاطر ہی اپنی غلطیوں و نا انصافیوں کا مداوا کرتے ہوئے اپنے پورے تعاون سے بر اعظم افریقہ کی تمام کالونیوں کو آزاد کر دیں۔
تاہم یہ بالکل واضح رہے کہ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے کوئی افریقی نوعیت کا حل ڈھونڈنا ہوگا جو افریقہ بھر کے ممالک کے اتحاد سے ممکن ہے۔ منقسم صورت میں ہم نہایت نحیف و کمزور ہیں جب کہ ”متحدہ افریقہ“ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتوں میں سے ایک بن سکتا ہے جودنیا بھر کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔
زیادہ تر افریقی ممالک غریب ہیں لیکن ہماری افریقی سر زمین انتہائی متمول ہے جسے بیرونی سرمایہ کار اپنے سرمائے سے لوٹتے ہیں اور اس لوٹ مار سے ان کی دولت اور ثروت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے معدنی ذخائر کی طویل فہرست میں سونے اور ہیرؤں سے لے کریورینیم ا ور خام تیل تک شامل ہے۔ ہمارے جنگلات سے دنیا کی سب سے بہترین لکڑی مہیا ہوتی ہے، ہماری نقد فصلوں میں کوکو، کافی، ربر، تمباکو اور کپاس وغیرہ شامل ہے۔ اگر ہم توانائی کی بات کریں جو صنعتی ترقی کے نہایت اہمیت کی حامل ہے تو میں یہ بتاتا چلو ں کہ دنیا کے کْل آبی ذخائر کا 40 فیصدحصہ افریقہ میں ہے۔ یہ تناسب یورپ میں محض 10 فیصد اور شمالی امریکہ میں 13 فیصد ہے۔ جب کہ افریقہ کے اس 40 فیصد آبی ذخائر میں سے اس وقت تک محض 1 فیصد ذخائر سے ہی مستفید ہواجا رہا ہے۔ ہمارے درمیان اس ابہام کو پختہ کرنے کی اہم وجہ بھی یہی ہے کہ وسائل کی فراوانی کے با وجود افریقہ غربت کا شکار ہے۔
اس سے قبل کبھی یہ ہمارے اختیار میں نہیں تھا یا شاید کوئی اس کا ادراک ہی نہیں کر پایا کہ افریقی ممالک میں اس قدر بہتر مواقع موجود ہیں۔ افریقہ میں کچھ ممالک کافی امیر ہیں اور چند غریب، اگر وہ اپنے عوام کے لیے کچھ کریں اور باہمی تعاون کے تحت اگر ایک دوسرے کی مدد کی جائے تو اس سے کافی کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ا س کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ اقتصادی ترقی کے لیے اس خطے کا ایک متفقہ منصوبہ ترتیب دے کر اس پر باہمی تعاون سے عمل کیا جائے۔ خطے کی معاشی ترقی کے لیے اگر ایک کمزور وفاق منصوبہ بندی کرے تووہ اپنے بنیادی اہداف کبھی حاصل نہیں کر پائے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک مضبوط سیاسی اتحاد ہی ہمارے وسائل کا درست اور موثر استعمال کرتے ہوئے ہمارے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے عمل کو یقینی بنا سکتا ہے۔افریقہ کی موجودہ سیاسی صورتحال کافی حوصلہ افزا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کافی پریشان کن بھی ہے۔ ہمت افزا یوں کہ افریقہ کے بے شمار ممالک اپنے نئے پرچموں کے ساتھ شاداں وفرحاں ہیں اور یہ صورتحال پریشان کن اس لحاظ سے ہے کہ افریقہ کے بے شمار ممالک اپنے بدلتے ہوئے جغرافیہ ا ور ترقی کی سطح کی نسبت نہایت کمزور اور چند معاملات میں حد درجہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ تقسیم کردینے والی اس صورتحال کا جاری رہنا ہم سب کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
جنوبی افریقہ کی یونین اور جو ممالک اب تک آزاد نہیں ہوئے انھیں چھوڑ کر اس وقت تک کوئی 28 ریاستیں ہیں جن میں کم از کم 9 ریاستوں کی آبادی 3 ملین سے کم نہیں ہوگی۔ کیا آپ سنجیدگی سے یہ سوچ سکتے ہیں کہ استعماری طاقتیں انھیں بھی علیحدہ کرتے ہوئے مکمل آزادا ور خود مختار ریاستیں بنانے پہ بضد ہیں؟۔ اسی سے ان کی نیت عیاں ہوتی ہے۔ ہمیں جنوبی امریکہ کی مثال ذہن میں رکھنی چاہیے جہاں کے وسائل شمالی امریکہ سے زیادہ ہیں مگر وہ اب تک کمزورا ور دست نگر ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں بیرونی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تقسیم در تقسیم کیا گیا۔ ان تمام امورکا مطالعہ ہر افریقی کو کرنا چاہیے کیونکہ آج ہم بھی تاریخ کے ایسے یکساں دور سے گزر رہے ہیں۔
افریقی اتحاد کے ناقدین افریقہ کے مختلف حصوں کی ثقافتوں، زبانوں ا ور خیالات کے اختلافات یا فرق کو عموماً ایک نقص، ایک خرابی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم میں کچھ چیزیں یکساں نہیں ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم سب آخرکار افریقی ہیں۔ ثقافت، زبان اور مختلف سیاسی نظاموں کا فرق کوئی ایسا فرق ہرگز نہیں جسے نا قابل عبور مشکلات قرار دیا جائے۔ اگر سیاسی ہم آہنگی کے تحت افریقی ممالک کا اتحاد ہماری خواہشات کے مطابق قائم ہوتا ہے،اس پر ہم متفق ہیں تو ہم اسے قائم کر سکتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔
افریقہ کے موجود متعدد رہنماؤں نے اس سلسلے میں پہلے ہی قابل ذکر انداز میں اپنی رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے باہمی مشاورت کا عمل شروع کر دیاہے۔ اوراب افریقیوں کو یہ چاہیے کہ وہ اب اپنی سوچوں کو محدود کرنے کے بجائے پورے خطے کے تناظر میں سوچیں۔ انھیں یہ احساس کرنا ہوگا کہ اْن میں کافی چیزیں مشترک ہیں جن میں ان کی تاریخ، اْن کے موجودہ مسائل اور اْن کے مستقبل کی اْمیدیں وغیرہ شامل ہیں۔اگر کوئی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ تجویز دیتا ہے کہ افریقہ کے ایک ایسے سیاسی اتحاد کے لیے اس وقت ماحول ساز نہیں ہے تو میرے نزدیک یا تو وہ افریقہ کے متعلق حقائق سے لاعلم ہے یا پھر وہ افریقہ کی موجودہ سچائی کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔
امنِ عالم کے لیے افریقہ وہ کردار ادا کر سکتا ہے جس سے عدم اتحاد کے باعث پیدا ہونے والی تمام خطرات و تفرقات کا سد باب ممکن ہے۔ اس طرح کے سیاسی اتحاد کی کامیابی ہماری موجودہ منقسم دنیا کے لیے بہترین مثال کے طور پر پیش کرنے کے قابل ہو گی۔ افریقی ریاستوں کا یہ اتحاد حقیقی معنوں میں ”افریقی شخصیت“ کو جلا بخش کر اسے دنیا سے روشناس کرائے گا اور اس کے باعث ہماری یہ دنیا جسے اب تک بڑے ممالک نے اپنی اثر پذیری کے تحت چلا یا، اس کانہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ چلانا ممکن ہو گا۔صحارا(Sahara) کے ریگسانی علاقے میں فرانس کے کیے جانے والے ایٹمی تجربات پر افریقی احتجاج کو اہمیت نہیں دی گئی اورحیرت انگیز طور پر اقوام متحدہ کے سخت قوانین بھی اس سلسلے میں نہ صرف یہ کہ بے اثر ثابت ہوئے بلکہ خود ایک تماشے کی صورت اس اقوام متحدہ کے ادارے کے لیے ذلت کا باعث بنے۔ جب کہ کانگو میں اقوام متحدہ کی آئینی حیلہ سازی و ٹال مٹول کی وجہ سے ہی یہ ریاست لا قانونیت کی بھینٹ چڑھتے ہوئے زوال پذیر ہوئی۔ یہ افریقی ممالک کی آزادی کے سلسلے میں عالمی طاقتوں کی بے حسی و بے اعتنائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا بڑھتا ہواذخیرہ کسی عظمت و بڑائی کا پیمانہ نہیں ہے اور نہ یہ کہ آپ کے پاس کتنے ایٹم بم موجود ہیں۔ میں خلوصِ دل و بڑی پختگی کے ساتھ یہ ایمان رکھتا ہوں کہ دانائی ا ور وقار کی گہری جڑیں انسانی زندگی کی قدر اور اس سے محبت کرنے کی انسانی جبلت میں پنہاں ہیں۔ انسانیت سے شدید محبت ہی ہماری وراثت ہے۔ ہم افریقی ایک وفاق کے زیر سایہ متحد رہتے ہوئے ہر گز ایسی قوت ا ور گروہ کی صورت نہیں اْبھریں گے جسے اپنی قوت و سرمائے کی نمائش کرنی ہو بلکہ ہم وہ عظیم قوت بنیں گے کہ جس کی عظمت غیر تخریبی ٹھہرتے ہوئے لا فانی ہو، جسے خوف، حسد، بدگمانی اور بغیر کسی کے وسائل کی لوٹ مار کی امید کے، اعتماد، بھروسہ، دوستی اور بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لیے کوشاں رہنا ہو۔
اس شورش زدہ دنیا میں ایسی طاقتور اور مستحکم قوت کا ظہور دنیا بھر کو اپنی طرف کسی غیر واضح ا ور تصوراتی نظریے کی جانب مبذول نہیں کرے گا۔ بلکہ دنیا اسے ایک قابل عمل تجویز کے طور پر دیکھے گی اور دنیا بھر کے انسانوں کے سامنے اس خواب کو افریقہ کی عوام ہی سچ ثابت کر دکھائیں گے۔ جس طرح سمندر کے مدو جز ر میں اک طوفانی لہر کے باعث طغیانی کا باعث ہوتی ہے اسی طرح کچھ سیاسی فیصلوں کے باعث انسانوں کے مکمل کاروبار زندگی کو بدل دینا بھی ممکن ہے۔
تاریخ میں ایسے لمحات آئے ہیں۔ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہی مثال لیں جس کے بانی رہنماؤں نے الگ الگ ریاستوں کی چھوٹے چھوٹے تنازعات کے باعث ہونے والے جنگوں کے نقصانات سے نجات پانے کے لیے خود کو متحد کرتے ہوئے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ اب ہمیں یہ موقع نصیب ہوا ہے، ہمیں ابھی سے فعال اور سرگرم ہوکراس موقع سے مستفید ہونا چاہیے۔ کیوں کہ کل تک شاید بہت دیرہو جائے اور یہ موقع ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ یہ وہ موقع ہے جس سے آزاد افریقہ کے بقاکی اْمید وابستہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔