محمد بشیر سے پرویز بلوچ تک – منظور بلوچ

601

بشیر سے پرویز بلوچ تک

 تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کتنے المیے ہیں، جو روز بلوچستان میں جنم لیتے ہیں، ایسے میں بھلا کس کو پڑی ہے کہ وہ ایک گانے والے یا کسی ایکسٹرا ایکٹر کی داستان چھیڑے۔ اگر محمد بشیر کے پاس 131 ایوارڈ ہونے کے باعث اسکے گھر کا چولھا نہیں جلتا، تو اس میں ہمارا کیا قصور، اس لیئے کہ ہم نے اسکو کب مشورہ دیا تھا، کہ وہ گیت گاہے، اس نے ایک پروفیشن چنا، اسکو کیا ملا، کیا نہیں، یہ ہمارا درد سر تو نہیں، اس سے بہتر تھا کہ اس زمانے میں جب اس نے گیت اور سر کی دنیا میں قدم رکھا، بڑی آسانی سے کسی بی اینڈ آر نما ڈیپارٹمنٹ میں قلی، چپڑاسی، مالی یا چوکیدار کی حیثیت سے تقرری حاصل کر سکتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں نوکری اور وہ بھی درجہ چہارم کی حاصل کرنا کونسا مشکل کام تھا، شاید اسکو اچھے مشیر اور دوست نہیں ملے، ورنہ وہ درجہ چہارم کی با عزت نوکری حاصل کر سکتا تھا، لیکن اسکو نغمے لٹانے کا شوق تھا، لہذا وہ اس شوق میں اور کچھ نہیں کر سکا، البتہ اپنی زندگی لٹا بیٹھا، اور اب وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ایوارڈز کے بدلے آرام کی زندگی گزار سکے گا، اس نے خود کو تو خوار کیا، ساتھ اپنے خاندان کو بھی لے ڈوبا، اس نے جو گیت گائے، وہ بھی اب کس کو یاد ہیں،؟ اور کیوں کوئی یاد رکھے،؟ہماری زندگی کے لیئے سر سنگیت اتنی ضروری بھی تو نہیں، ہماری زندگی کے لیئے پیسہ( خواہ وہ حرام اور لوٹ مار کا ہی کیوں نہ ہو، خواہ وہ کسی کے استحصال یا خون سے ہی حاصل نہیں کیا گیا ہو)، اسٹیٹس، چار پانچ بنگلے، چار چند باڈی گارڈز، ٹھیکے، پرمٹ، کاک ٹیل پارٹیاں اہمیت رکھتی ہیں، سر سنگیت والوں کو ہم ویسے بھی لوڑی سمجھتے ہیں، اور لوڑی کی جو اوقات ہے، وہ ہم سبھی جانتے ہیں، اگر محمد بشیر میں سوجھ بوجھ ہوتا، وہ کسی پارٹی میں قسمت آزمائی کرتا،( ویسے بھی سیاست میں آنے کے لیئے تعلیم کی ضرورت ہے ہی نہیں، اور ایسے میں اگر پیسے آگئے، تو ڈگری حاصل کرنا کونسا مشکل کام ہے)، فرض کریں، وہ دوسرا راستہ اختیار کرتا، آج گورنر یا کسی اہم پوسٹ پر ہوتا، تو کیا نظارہ ہوتا، جنگ کوئٹہ کا ادبی صفحہ سمیت ایکسپریس، انتخاب ،مشرق سمیت تمام اخبارات میں خصوصی ضمیمے چھپتے، ٹی وی چینلز انکے انٹرویوز کے لیئے انکے سیکریٹریز کی منت سماجت کرتے، ہر دوسرا لکھنے والا یہ لکھتا ہوا نظر آتا کہ بشیر صاحب تو میرے دوست ہیں، مجھ پر مہربان ہیں، سب سے زیادہ عزیز بھی مجھ کو رکھتے ہیں، کوئی اور لکھتا کہ جب میں ٹی وی میں پروڈیوسر تھا، تو سب سے زیادہ انکے پروگرامز میں نے کیئے، کوئی یہ کریڈت لیتا کہ بشیر صاحب کو سب سے پہلے ٹی وی میں میں نے انٹروڈیوس کروایا۔

اسکے بعد گورنر ہائوس کے سامنے معززین شہر کی قطار نظر آتی، کوئٹہ کے تمام لکھنے والے عید نماز گورنر ہائوس میں انکے ساتھ ادا کرتے، سلفیاں بناتے، اور گھر جاکر اپنی بیگمات پر رعب جماتے کہ ایک ہم ہیں کہ گھر میں ہمیں کوئی پوچھتا نہیں، جبکہ گورنر صاحب ہم سے ملے بغیر ناشتہ تک نہیں کرتے، یقین نہیں آتا، تو یہ سلفیاں دیکھو، پھر بیگمات اپنی سہیلیوں کے ساتھ شوخیاں بگھارتیں؛ گورنر ہاوس میں ڈنر کے لیئے لکھنے والوں کی لائن لگی ہوتی، ایوارڈ کے لیئے ادیب نما لوگ انکی چمچ گری میں بھی عار محسوس نہیں کرتے،لیکن اب ایسا نہیں، اس لیئے کہ وہ بھلے ایک بڑے فن کار ہوں، وہ بہت سریلے ہوں؛ بے شک انھوں نے زبان کی حیثیت سے براہوئی کو متعارف کرایا ہو، لیکن ان کے پاس پیسہ نہیں، گریڈ نہیں، سٹیٹس نہیں، اس لیئے کوئی ان سے ملنے جائے بھی تو کیوں، دوسری جانب پرویز بلوچ کی جو حالت ہے، جنھوں نے ایک طویل عرصے تک براہوئی اور بلوچی زبانوں کے ڈراموں میں کام کیا، لوگوں کو تفریح پہنچائی، ان کو ہنسایا، زبان کی خدمت کی، لیکن ظالم وقت نے پلٹا کھایا، آج انکی حالت قابل رحم ہے،( حالانکہ ان سے زیادہ پیسے کو پوجنے والے معاشرے کی حالت قابل رحم ہے)، آج انکو علاج کی، باعزت روزگار یا وظیفے کی ضرورت ہے، لیکن حکومت بے چاری بھی کیا کرے، پرویز بلوچ سے زیادہ تو وزراء کی خدمت ضروری ہے، انکا وظیفہ زیادہ لازمی ہے، نہیں تو حکومت نہیں رہے گی، ہر وزیر نے الیکشن جیتنے کے لیئے اپنا ضمیر بیچنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے بھی خرچ کیئے ہیں، اگر وہ حکومتی خزانے سے کروڑوں کما نہیں لیتے، اگلے الیکشن کے لیئے پیسہ کہاں سے آئے گا، پھر انکے چمچے کڑچے بھی ہیں، بھائی، رشتے دار، سسرالی بھی ہیں، اور سب نے کروڑ پتی بننا ہے، وہ بھی اسی خاص مدت میں، اس کے بعد کون جانے، لاٹری لگے یا نہیں لگے، اسکے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی ہے، ان بے روزگاروں کا جیب خرچ بھی تو حکومت کے ذمے ہے، کیونکہ اگر انکی جیب میں روپیہ نہیں ہوا، تو وہ اسمبلی میں اول فول کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، جس سے حکومت کی سبکی کیا ہونی ہے، البتہ مفت کی چخ چخ ہوگی، جس سے ٹھیکوں میں گھاٹا ہو سکتا ہے، حکومت کو کروڑوں کی قیمتی گھڑیاں، گاڑیاں، قیمتی قالین سمیت جانے کیا کیا کچھ خریدنا ہے، جس سے بیورو کریسی، نیب اور نہ جانے اور کتنے طاقت ور لوگوں کو رام کرنا ہے، سینٹ کے چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں اربوں روپوں کے گھوڑے اور قربانی کے بکرے اور بکریاں بھی خریدنی پڑتی ہیں، حکومت کرنا کیا آسان کام ہے، یہ کوئی شریفوں کا کام تو ہے نہیں، نہ جانے کتنی بلائیں اور مافیاز منہ کھولے بیھٹی رہتی ہیں، جنکو باقاعدگی سے ” ہفتہ ” ملتے رہنا چاہیئے، اور تو اور یہ لفافے والے صحافی، جنکو گھر میں کوئی نہیں پوچھتا۔

بات بات پہ بلیک میل کرتے ہیں، انکے لیئے مشروب مغرب تک کا انتظام بھی وزیروں کو حکومتی خزانے سے کرنا پڑتا ہے، ان “ٹھیکیدار” صحافیوں کے بھائی، بھتیجوں کو ملازمتوں پہ بھی رکھنا ہوتا ہے، انکے کسی بھی قریبی رشتہ دار کی شادی کی صورت میں صوابدیدی فنڈ کو بھی استعمال کرنا پڑتا ہے، سو بھائی میرے، حکومت بے چاری، خود دکھیاری ہے، اب وہ پرویز بلوچ کے لیئے کیا کرے، اگر کچھ تھوڑا بہت کر بھی لیا، تو اس کے بعد ” وی آئی پی” فن کاروں کی بھی لائن لگ جائے گی، اور یوں حکومت دکھیاری بلوچستان کے عوام کی قسمت کو بدلنے والے پروگرامز پر عملدرآمد سے قاصر ہوجائے گی، لہذا بہتر یہی ہے کہ پرویز بلوچ حالات کو سمجھ جائیں، اب یہ الگ مسئلہ کہ پرویز بلوچ ذہنی طور پر ابنارمل ہوچکے ہیں، لیکن بلوچستان کے عوام کے ساتھ موجودہ حکومت کی انتہا درجے کی کمٹ منٹ کو سمجھنا ہوگا، حکومت، عوام کے مسائل کے لیئے اس حد تک سنجیدہ ہے، کہ جسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی، اگر محمد بشیر و پرویز بلوچ جیسے مسائل سے انکا سامنا نہ ہو، تو اس مرتبہ وہ بلوچستان کو جنت بنا کر دم لیں گے، بلوچستان میں لوگوں کو حقیقی معنوں میں دودھ اور شہد کی نہریں ابلتی اور مچلتی نظر آئیں گی، شیر اور بکری، سچ میں ایک گھاٹ پر پانی پیتے نظر آئیں گے، کوئٹہ، کراچی شاہراہ چشم زدن میں دو رویہ بنا دی جائے گی، قیمتی جانوں کا ضیاع رک جائے گا، عدل کی عملداری ہوگی، کوئٹہ کیا بلوچستان کی تمام سڑکیں تارکول کی بجائے سنگ مرمر کی ہو جائیں گی، کوئی غریب ادویات نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی نہیں ہارے گا، کم از کم پانچ لاکھ نوجوانوں کو روزگار دیا جائے گا، تاکہ آئندہ بے روزگاری کے ہاتھوں کوئی نوجوان بندوق نہ اٹھائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ محمد بشیر اور پرویز بلوچ کو بھی سمجھنا ہوگا، انکو قوم کے عظیم تر مفاد میں کچھ اور بھی قربانی دینا ہوگی،( حالانکہ غربت، بے روزگاری اور امراض کی وجہ سے پرویز بلوچ ذہنی توازن کھو چکے ہیں)۔

بلوچستان حکومت کے اتنے ڈھیر سارے مسائل کے باوجود اگر یہ رونا برقرار رکھا جائے گا، تو کل لوگ یہ سوال بھی تو اٹھائیں گے کہ مراد پارکوئی کیوں فوت ہوگئے،( قطع نظر اس سے کہ بلوچستان حکومت مراد پارکوئی کو جانتی بھی نہیں ہوگی)، لیکن لوگ تو لوگ ہیں، وہ تو بال کی کھال اتاریں گے، ہوسکتا ہے کہ پارکوئی غربت اور بیماری سے فوت ہوئے ہوں، لیکن یہ سلسلہ تو چل نکلے گا، ہو سکتا ہے کہ پارکوئی کو ٹیلی وژن کے ارباب اختیار سے گلہ ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے بدنام زمانہ ” ففٹی ففٹی” کا شکار ہوئے ہوئے ہوں، ہوسکتا ہے کہ اس موضوع پر انھوں نے کوئی شاعری بھی لکھی ہوئی ہو، لیکن اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سارا حساب موجودہ حکومت سے لیا جائے۔

اگر حکومت دادرسی کرتے ہوئے بشیر اور پرویز کی مدد کر بھی لے، تو لوگ یہ سوال اٹھائیں گے کہ محمد علی کیوں فوت ہوئے،( اب حکومتی ترجمان تو عاجز ہو جائیں گے کہ بھائی یہ محمد علی کون ہے؟ اس نام کے درجنوں لوگ روزانہ مرجاتے ہیں، اس میں حکومت کا کیا قصور، پھر یہ ذات شریف کون تھے، ان کی کیا خدمات تھیں، اگر خدمات ہوتیں، تو ہم بھی اس نام سے واقف ہوتے)، اب حکومت کے ذہین و فطین ترجمان کو کون یہ بتائے کہ محمد علی براہوئی اور بلوچی زبان کے ایک مشہورومعروف فنکار تھے، انھوں نے پچاس سالوں تک گیت گاکر ان زبانوں کی خدمت کی، مرحوم اپنے آخری ایام میں ثقافت کے انگوٹھا چھاپ وزیر کے دفتر کے سامنے بنچ پر بیھٹے ہاتھوں میں درخواست لیئے وزیر صاحب سے ملنے کی آس پر آتے، گھنٹوں انتظار کے بعد مایوس ہوکر نہ جانے اپنے بچوں کو ایک نئے دن کی امید پر دلاسہ دیتے، یوں دلاسہ دیتے دیتے ایک دن خود اللہ کو پیارے ہوگئے، اور وزیر کے دن نیارے ہوتے گئے، لیکن حکومتی ترجمان ٹھیک طور پر برسے گا کہ ایسے لوگوں کو ایک دن مرنا تو ہے، اب اکیلی بے چاری حکومت کس کس کی صدیوں کی غربت دور کرے گی، ابھی تک تو وزیروں، کبیروں اور اپوزیشن کی غربت دور نہیں ہوئی ہے، پھر بے چاری، عوام کی غم خوار حکومت کو یاد دلایا جائے گا، کہ جس حضور بخش مستانہ نے ستر سالوں تک براہوئی زبان کی خدمت کی، اسکا آپ نے کیا صلہ دیا، بلوچستان کے نامور آرٹسٹ عبدالقادر آخر دم تک پرائیڈ آف پرفارمنس کی آس لگائے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ایک آرٹسٹ کو ایک ایوارڈ تک نہیں دیا گیا، دوسرا فن کا ر131 ایوارڈز لیئے کسمپرسی کے دن گزار رہا ہے، لیکن پھر یہ سوال کہ ان سب کا موجودہ حکومت سے کیا لینا دینا، اب یہ الزام نہیں لگایا جائے کہ عید محمدعلی چالیس سال سے زیادہ عرصے تک براہوئی اور بلوچی زبانوں میں گیت گاتے رہے، نغمے کمپوز کرتے رہے، ان پر عملا حملہ کرواکر انکو ٹی وی آنے سے روک دیا گیا، تب سے اب تک انھوں نے ہارمونیم کو چھوا تک نہیں، ہاں یہ بات پوچھی جاسکتی ہے کہ اس وقت کے ادیبوں، دانشوروں اور اکیڈمیز نے اس مسئلہ پر کیوں خاموشی اختیار کی؟ کیا وہ سارے کے سارے تیل بیچنے گئے تھے، جی ہاں، یہ بات درست ہے کہ وہ سب تیل لینے گئے تھے، لیکن ایسی صورت میں حکومت کا کیا لینا دینا، البتہ وہ عید محمد علی سے معافی مانگے، اس کا ازالہ کرے، اور اس وقت کے ٹی وی کے تمام اختیارداروں کے خلاف نیب کے ذریعے تحقیق کرائی جائیں، اور ففٹی ففٹی کے بدنام زمانہ فارمولے کے تمام کرداروں کو سامنے لائے، جنھوں نے با صلاحیت اور حقدار فنکاروں کی حق تلفی کی، یہ بھی سنا گیا کہ ایوب کھوسو جیسے فن کار سے بھی ففٹی ففٹی کا مطالبہ کیا گیا،( ففٹی ففٹی کا مطلب فنکار کا آدھا معاوضہ پروڈیوسر کو ملے گا) یہی وجہ ہے کہ ٹی وی برباد ہوگیا، اس سے وابسطہ سارے فنکار بے روزگار ہوگئے، جنھوں نے اپنی پوری زندگیاں وقف کی رکھی تھیں۔

آج حالت یہ ہے کہ کوئیٹہ جیسے شہر، جسے آپ بڑے ناز سے، کیپیٹل کہتے ہیں، آپ کو ایک بھی میوزیشن نہیں ملے گا، وائلن، گٹار، بانسری، دمبورہ، رباب نواز کچھ بھی نہیں ملے گا، پھر بھی آپ بڑی بے شرمی کے ساتھ کہتے ہیں کہ کوئیٹہ کیپیٹل ہے، کوئیٹہ تو شہر بھی نہیں ہے، اس لیئے کہ شہر فنون لطیفہ کے مراکز ہوتے ہیں۔

جس شہر میں موسیقی نہ ہو، تھیٹر نہ ہو، رنگ و برش کا آرٹ نہ ہو، سخن فہمی نہ ہو، ادبی مزاکرے نہ ہوں، ڈرامے نہ ہوں، ادبی مجلے اور میگزین نہ ہوں، فلم نہ ہو، افسانہ نہ ہو، ناول نہ ہو، کتابوں کی پبلشنگ نہ ہو، پبلشنگ کے ادارے نہ ہوں، کتابوں کی چند ایک دکانیں، وہ بھی مر رہی ہوں، بچوں کا ادب نہ ہو، بچوں کی کتابوں کی کہانیاں نہ ہوں، بچوں کا کوئی اخبار بھی نہ چھپتا ہو، آپ کس شرم کے ساتھ اسے شہر تو کجا کیپٹل کہیں گے، اور آپ یہ دعوی کریں گے کہ ہم تعلیم کو لازمی اور صد فیصد کریں گے، ہم پی ایچ ڈی پیدا کریں گے، جو شہر کہانیاں پیدا نہیں کر سکتا، جوشہر موسیقی کا گلہ گھونٹتا ہو، جو شہر ارباب کھوسہ کو نہ جانتا ہو، جو شہر جیتے جی رفیق شاد کو بھول جائے، جو شہر غلام نبی راہی سے واقف نہ ہو، جو شہر اکبر کاکڑ کو نہ جانتا ہو، اس کو شہرکہتے ہوئے ہنسی بھی آتی ہے اور شرمندگی کا احساس بھی ہوتا ہے، جناب حکومت چونکہ آپ کے کام بہت ہوں گے، محمد بشیر اور پرویز بلوچ سے بڑے امور آپ کو درپیش ہونگے، آپ ان پر ہی دھیان دیجیئے یہ فضول کی باتیں ہیں، ان پر وقت برباد نہ کریں، پرویز بلوچ کا مقدر پاگل خانہ بنتا ہے، بننے دیجئے، محمد بشیر کے گھر کا چولھا 131 ایوارڈز کے باوجود نہیں جلتا تو نہ جلے، لیکن ایک بات ضرور یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسے معاشرے میں پھر محمد بشیر جنم نہیں لیتے۔۔۔ اور جو جنم لیتے ہیں، ان کے سروں کی قیمت حکومت کو لگانا پڑتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

SHARE
Previous articleخاران: ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں پرحملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل اے
Next articleمشکے، واشک حملوں کی ذمہ داری بی ایل ایف نے قبول کرلی
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔