ماہ اگست، بلوچستان کی آزادی اور قربانیوں کا تسلسل
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں سب سے بڑی خیانت اپنی سرزمین سے غداری ہے، وہ قومیں ہی اس دنیا میں آباد اور قائم رہتی ہیں، جو اپنے مادر وطن کی عزت اور ننگ و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں اور اسں کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ وہ سر زمین کتنی مقدس ہوتی ہے، جسکے بہادر سپوت ہوتے ہیں۔ جو ہر طرح کی آفتوں سے اسکی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، اور اپنی سر زمین پر کسی قسم کی آنچ تک نہیں آنے دیتے۔ لیکن اس دنیا میں اب بھی کچھ ایسی قومیں ہیں جو ظلم و جبر کے قبضے میں ہیں، اور اس قوم کے فرزند اپنے وطن کی خودمختاری اور آزادی کی تحریک لڑ رہے ہیں، کرد، تامل، باغی ، فلسطینی، کشمیری اور بلوچ قومیں ہیں، جو ابھی تک اپنی خودمختار ریاست کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
بلوچ قوم کی اپنی ایک شناخت ہے، اسکی اپنی زبانیں ،تہذیب و ثقافت اور روایات صدیوں کا تاریخ رکھتی ہے، بلوچ قوم نے اپنی سرزمین کی دفاع کے لیے مختلف اقوام پرتگیزی، مغل ، اور برطانیہ سرکار سے جنگیں لڑی ہیں۔ بلوچ قوم نے جس بہادری سے انگریز سرکار کے ساتھ اپنی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کیا، اسکا ثمر انھیں 11 اگست 1947 میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی صورت میں ملا۔
لیکن بہت ہی مختصر عرصہ خود مختار اور آزاد ریاست رہنے کے بعد بلوچستان کو اسلام کے نام پر بننے والے نومولود اسلامی جمہوریہ ریاست پاکستان میں جبری ضم کر دیا گیا۔
بلوچستان کے پارلیمان نے پاکستان کے ساتھ ضمن ہونے سے انکار کرتے ہوۓ مزاحمت کی تھی، اور ایک آزاد ریاست رہنے کو ترجیح دیا۔ لیکن قبضہ گیر پاکستان نے قلات پر فوج کشی کرکے اس پر جبری قبضہ کر لیا۔
بلوچ ایک غیور قوم ہونے کے بنا پر غلامی کی زندگی کو قبول نہ کرتے ہوۓ آج تک پاکستان سے اپنی آزادی کے لیے مزاحمت کر رہی ہے۔ یہ مزاحمت کبھی تیز اور کبھی سست روی کا شکار ہوتا رہا، لیکن نہ ختم ہونے والی اس مزاحمت میں اب ایک تسلسل اور روانی آچکی ہے۔ بلوچ قوم کو شعور آگیا ہے کہ کیسے ظالم قبضہ گیر پاکستان نے ان کو غلام بنا کر رکھا ہے اور ان کے وسائل کی سوداگری کر رہا ہے، حقدار کو اسکا حق نہیں دے رہا، بلوچ قوم میں سواۓ چند ایک کٹھ پتلی اور ضمیر فروشوں کے بلوچ اکثریت پاکستان سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ وہ ایمان فروش جو اپنے مفادات کی خاطر قوم کے مستقبل کو ظالم اور جابر دشمن کے ہاتھ میں گروی رکھ دیا۔ ایسے ضمیر فروشوں اور غداروں کا بھی احتساب ضرور کیا جاۓگا۔
جہاں پاکستان بلوچ قوم کے نوجوانوں، بچوں، بزرگوں کو اغواء کرکے پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں دشت و ویرانوں میں پھینک دیتا ہے، بلوچ فرزندوں کی اجتماعی قبریں ملتی ہیں، بلوچ آبادیوں کے گاؤں جلاۓ جاتے ہیں، سیاسی مکالمے والے لیڈروں کو قتل کرواتے ہیں، بلوچ قوم کے وسائل کو بےدردی سے لوٹ کر پاکستان اپنے سیاسی مفادات کے لئے اپنے دوست ملک چین کو بلوچوں کے حاکم کے طور پر ان کے سر پر لا کر بیٹھایا ہوا ہے، اور بلوچ قوم کو اسکی خود کی سر زمین پر منظم منصوبے کے تحت اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہے، ان مظالم کے تناظر میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں اب ایک نیا جوش اور جذبہ آگیا ہے۔
گیارہ اگست ہمیں اس آزادی کی یاد دلاتی ہے جو لازوال قربانیوں اور جدو جہد کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اس آزادی کو پانے کے لیئےقابض ریاست پاکستان کے خلاف بلوچ مزاحمتی تحریک میں بالخصوص بلوچ نوجوان طبقے میں جس جوش اور ولولے کے ساتھ وطن کے لیے اپنی قمیتی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں، ان بہادروں کو سرخ سلام ، ایسے ہی بہادر نوجوانوں میں سے ایک بہادر نوجوان ریحان بلوچ جس نے گیارہ اگست 2018 کو چینی انجینئروں کے بس پر خود کش دھماکہ کرکے اپنی جان کو بخوشی وطن کے لیے قربان کر دیا، اور قابض ریاست پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، بلوچ قوم اپنی آزادی واپس لے کر ہی رہے گی، اسکی ہمت اور جرات کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے اسکے حوصلے کے نظر ایک شعر کرتے ہیں
ہوئی ہے جب سے مخالف ہوا زمانے کی
مجھے بھی ضد سی ہوئی ہے دیا جلانے کی
ریحان بلوچ کی طرح ہمارے بے شمار نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ مادر وطن کے لیئے دیا ہے، اور ایسے بے شمار نوجوان اس تحریک کے لیئے اپنی جانیں دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،ہمیں اپنے اس تحریک کو صحیح سمت دے کر اپنی کمزوریوں کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے ان پر قابو پایا جائے، پوری قوم کو آزادی کے تحریک کے لیے یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے، تبھی آزادی کی یہ تحریک اپنے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔