قلات سے بلوچستان یونیورسٹی کا طالب اور مستونگ سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے خطاط کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جو کہ تاحال بازیاب نہ ہو سکے ۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق 28 اکتوبر 2016 کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے شیر احمد ولد غوث بخش کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کر دیا تھا جو کہ تاحال بازیاب نہ ہوسکا ۔
کلی دتو سے اپنے گھر سے لاپتہ ہونے والا شیر احمد مستونگ شہر میں خطاطی کا کام کرتا تھا ۔
دریں اثناء قلات پوسٹ آفس کالونی سے بلوچستان یونیورسٹی کا طالب دو ماہ گزرنے کے باوجود تاحال بازیاب نہ ہوسکا ۔
ماجد مینگل ولد داد محمد کے لواحقین نے حکومتی اداروں سے اپیل کی کہ وہ ہمارے لاپتہ بیٹے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کردیں ۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اس وقت پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کےلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے گذشتہ ایک دہائی سے پرامن احتجاج جاری ہے جبکہ حالیہ عرصے میں قوم پرست پارلیمانی جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے بھی پاکستان کے وفاقی حکومت کی حمایت کے بدلے اپنے جن چھ نکات کو پیش کیا ان میں ایک نقطہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا بھی ہے