فدائی ریحان بلوچ آزادی کی علامت
تحریر: زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ریحان جس لمحے اپنی جان کا نذرانہ پیش کررہا ہوگا، اس کے ذہن میں ایک حسین خواب ہوگا، اس نے اپنے اس حسین خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنا جان فدا کیا کیونکہ کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جن کے تعبیر کو سچ ثابت کرنے کے لئے لہو بہانا پڑتا ہے، جان کو قربان کرنا پڑتا ہے، تب جاکر وہ خواب حقیقت میں تبدیل ہوتے ہیں، ریحان کا خواب ایک آزاد بلوچستان تھا، ریحان اپنے نسلوں کو اس غلامی، بے بسی سے نکالنے کا خواب دیکھتا تھا، ریحان قبضہ گیر غیروں کی چنگل اور اذیتوں سے مادر وطن کو آزادی دینا چاہتا تھا اور اس خواب کو حقیقت کی روپ اس وقت دیا جاسکتا تھا کہ اس کے لئے ایک ایسا قدم اٹھا لیا جائے جس سے خوابوں کو قتل کرنے والے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ جائے، ریحان نے ایسا ہی کیا اپنے جان کو فدا کیا، وہ وطن کا دلہا بنا، وہ فدائی بن کر دشمن کے صفوں میں گھس گیا اور ان پر وار کرکے دنیا کی توجہ بلوچستان کی جانب مبذول کرایا اور ان کو یہ پیغام دیا کہ یہ سرزمین بانجھ نہیں، اس سرزمین کی رکھوالے اپنی جان دے کر اس کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
ریحان ایک باعمل بلوچ فرزند تھا، جو خالی خولی اور بلند و بانگ دعووں کے بجائے عمل پر یقین رکھتا تھا، وہ جانتا تھا کہ عمل کے بغیر ہم اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے، خوف اور مایوسی کو توڑنے کے لیئے عملی جہد کی ضرورت ہے، انہوں نے جہد کی ضروریات کو بھانپ کر خوف کی حصار کو توڑنے کا مصمم ارادہ کیا، جب ریحان نے فدائی حملے کا فیصلہ کیا اس وقت ہر طرف مایوسی نے ڈیرا جما لیا تھا، ایک مخصوص لابی مسلح محاذ میں نقب زنی کرنا چاہتا تھا، وہ نوجوانوں کو مایوسی کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں لگا ہوا تھا کہ جنرل اسلم بلوچ تحریک کیخلاف سرگرم ہے وہ تحریک کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے جنرل اسلم بلوچ کا میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا یہ سب کچھ ایک مخصوص ذہنیت کے ایجنڈے کا حصہ تھا، وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے بی ایل اے خصوصاً بلوچ قومی تحریک پر وار کرنا چاہتا تھا لیکن ان پروپیگنڈوں اور مخصوص و محدود سوچ کو جنرل اسلم بلوچ نے اپنی سیاسی و جنگی بصیرت اور دور اندیشی سے ناکام بناتے ہوئے تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی نوجوانوں میں ایک نیا سوچ متعارف کرایا وہ بلوچ تحریک اور بلوچ قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے اور دشمن کو شکست دینے کے لئے فدائی فکر کو پروان چڑھایا مجید بریگیڈ بلوچ مسلح محاذ پر امید کی ایک کرن ثابت ہوا شہید درویش کی سوچ کو ریحان نے مزید توانا کیا ریحان نے جس فکر کو اپنی خون سے پروان چڑھایا وہ آگے چل کر دشمن کے لئے ایک بہت تکلیف دہ عمل ثابت ہوا، مسلح محاذ سے منسلک بلوچ نوجوان ایک نئی عزم کیساتھ آگے بڑھنے لگے، پرعزم بلوچ سپاہی فدائی بن کر دشمن پر قہر بن کر ٹوٹنے لگے، قوم کے ٹوٹی ہوئی امیدیں ایک بار پھر جوڑنے لگے، یہ ایک بے باک فیصلے کی ثمرات تھے کہ مسلح جہد میں شدت پیدا ہوئی۔
استاد اسلم ایک باپ کیساتھ ایک بہادر جنرل کا فرض نبھایا اور ریحان نے ایک نیک صالح اولاد کیساتھ وطن کے ایک بہادر فرزند کا فرض ادا کیا، اس فیصلے سے نہ جنرل کے پایہ استقامت میں لرزش آئی نہ ہی ریحان کے قدم ڈگمگائے۔
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
ریحان نے چراغ جلا کر نوجوانوں کو راہ دکھایا اور اندھیروں کو چیرتےہوئے منزل کی جانب بڑھتا ہی چلا گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔