ایک ایسے وقت میں کہ جب کابل حکومت کو مذاکرات میں شامل کیے بغیر امریکا اور طالبان کے درمیان امن ڈیل ہونے کو ہے، افغان صدر اشرف غنی نے غیرملکی مداخلت کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات جاری ہیں اور توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں کہ فریقین جلد ہی کسی امن معاہدے پر اتفاق کر سکتے ہیں۔ تاہم طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں کابل حکومت ایک طرح سے غیرفعال رہی ہے۔
عیدالضحیٰ کی نماز کے بعد گفتگو میں غنی نے اصرار کیا کہ اگلے ماہ ملک میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد افغانستان کے صدر کو یہ طاقت ہو گی کہ وہ ملک کے مستقبل کی بابت فیصلے کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان نہیں چاہتا کہ دیگر ممالک اس کے داخلی امور میں مداخلت کریں۔
امریکی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو یکم ستمبر تک حتمی شکل دے دی جائے، تاکہ افغانستان میں صدارتی انتخابات سے قبل امن کا ماحول قائم ہو۔ فریقین کو توقع ہے کہ وہ افغانستان سے قریب بیس ہزار نیٹو اور امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق امور پر اتفاق رائے کر لیں گے، جب کہ اس کے عوض طالبان سے ضمانت لی جائے گی کہ وہ دیگر شدت پسند گروہوں کو اپنے ہاں جگہ نہیں بنانے دے گا۔
قطر میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ مذاکراتی دور کے خاتمے پر ایک امن معاہدے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے عید کے روز اپنے پیغام میں اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ عیدیں ‘اسلامی نظام‘ کے تحت منائی جائیں گی، جو مستقل امن اور اتحاد سے عبارت ہو گا۔