شہید شہباز اکبر خان بگٹی – لطیف بلوچ

1184

شہید شہباز اکبر خان بگٹی

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فیوچک نے کہا تھا آپ میں سے جو لوگ تاریخ کے اس دور کے بعد زندہ رہیں گے، میں ان سے کہوں گا ان لوگوں کو کبھی مت بھولیئے جنہوں نے عوام کے لئے اپنی جانیں قربان کیں، ان کے متعلق جتنی دستاویزات ممکن ہوں محفوظ کیجئے۔ حال بہرحال ماضی میں تبدیل ہوجائے گا اسی ماضی کے ان گنت ہیرو ہوں گے، جنہوں نے تاریخ بنائی ہے۔ ان سب کے نام تھے، خدوخال تھے، امیدیں اور خواہشیں تھیں۔ ان میں سے سے ہر ایک کی تکلیفیں ان لوگوں سے کسی طرح کم نہیں جن کے نام تاریخ میں محفوظ رہیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سب سے قربت محسوس کریں، جیسے آپ ان سب سے واقف ہوں، جیسے یہ سب آپ ہی کے خاندان سے ہوں جیسے یہ آپ خود ہی ہوں۔

شہید شہباز اکبر خان بگٹی بھی بلوچ قوم تحریک کا ایک ایسا تاریخ ساز کردار ہے، جنہوں نے نوآبادیاتی تسلط کیخلاف مزاحمت کی، ہمیں چاہیئے اس کے نظریہ و فکر کو اپنائیں، قربت حاصل کریں اور ان کی نقش قدم پر چلیں۔

26 اگست 2006 بلوچ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش دن ہے، اس دن کی اہمیت بلوچ تاریخ میں تاابد انتہائی اہم رہے گا، قربانی کا جب ذکر ہوگا، وطن پر جان نچھاور کرنے والوں کا جب تذکرہ ہوگا وفا کی جب داستان رقم کی جائے گی 26 اگست کو نظر انداز کرکے تاریخ کے اوراق نامکمل رہیں گے۔ مورخ جب بھی تاریخ لکھیں گے، تاریخ، جدوجہد اور قربانیوں پر روشنی ڈالیں گے ڈاڈائے بلوچ نواب اکبر خان بگٹی کے بغیر تاریخ نامکمل ہی رہے گی، جدوجہد، قربانی، ایثار، بہادری اور وطن دوستی کے قصے ادھورے ہونگے۔ کیونکہ اس دن کو اگر بلوچ تحریک سے نکالا جائے اس دن کا تذکرہ نہیں کیا جائے، اور اس دن کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا جائے اس دن کے متعلق آنے والی نسلوں کو اگر نا بتایا جائے پھر بلوچ قومی تحریک کی تسلسل ختم ہوجائے گی، یہ قربانیوں کا تسلسل جو 1948 سے جاری ہے، تسلسل کا یہ سفر ٹوٹ جائے گا، آنے والی نسلیں جدوجہد، قربانی، اور آزادی کی اہمیت سے ناآشنا رہیں گے۔ تراتانی کے سینے میں جو راز دفن ہیں ان رازوں سے ہر بلوچ کو بہرہ مند ہونا چاہیئے، تراتانی کا نوحہ بلوچ مورخوں، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں پر قرض ہے۔

26 اگست ایک سقوط کا دن ہے، ایک سیاہ دن ہے۔ یہ دن ہمیشہ سقوط تراتانی کی نام سے یاد رکھا جائے گا۔ 26 اگست کا واقعہ یک دم رونما نہیں ہوا تھا یہ ظلم و جبر کا ایک تسلسل ہے جو بلوچستان پر جبری قبضے کے ساتھ شروع ہوا تھا اس تسلسل کو ہمیشہ بلوچ قوم نے خون دے کر رواں رکھا ہے۔ آزادی کے علم کو بلوچ قوم نسل در نسل تھام کر آگے بڑھ رہے ہیں، منزل کی جستجو، آزادی کی حصول کے لیئے نسل در نسل لہو سے چراغ روشن کررہے ہیں، آنے والے نسلوں کے لئے راستہ بنا رہے ہیں تاکہ نسلیں راہ سے بے راہ نہ ہوں۔

قومیں طویل جدوجہد، قربانیوں اور اپنے آباواجداد کی نقش قدم پر چل کر ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، وطن سے والہانہ محبت ہی قومی شناخت کو بحال و برقرار رکھنے کی شرط ہے۔

بلوچستان میں 27 مارچ 1948 سے جبر کا سلسلہ جاری ہے، مختلف ادوار میں بلوچ قوم آزادی، خودمختاری اور سر بلندی کے لیئے مزاحمت کرتے رہے ہیں اور 26 اگست 2006 کو نواب بگٹی و ساتھیوں کی شہادت اس تسلسل کا حصہ تھا۔ فوجی آمر جنرل مشرف نے اکبر خان بگٹی کیخلاف سازشوں کا آغاز کیا 2005 میں ڈیرہ بگٹی کے حالات خراب ہونے لگے لیکن شازیہ خالد کیس سے حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوگیا اور ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے حالات کشیدہ ہونے لگے، 17 مارچ 2005 کو بگٹی قلعے پر حملہ اور بڑی تعداد میں شہادتوں کے بعد نواب اکبر خان بگٹی نے اپنے جانثاروں اور قبیلے کے لوگوں کے ہمراہ پہاڑوں پر چلے گئے اور کوہلو کے پہاڑی سلسلے تراتانی کو اپنا مسکن بنایا اور بالآخر 26 اگست 2006 کو فوجی آپریشن کے دوران لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا انکی شہادت بلوچ قوم کے لئے ایک بہت بڑا نقصان تھا لیکن ساتھ ساتھ انکی عظیم قربانی نے بلوچ قومی تحریک کو مزید توانا کیا، تقویت فراہم کیا تحریک آزادی میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔

شہید شہباز نواب اکبر خان بگٹی رواں صدی کے ایک عہد ساز شخصیت ہیں، جس نے تاریخ کی اس موڑ پر جب غاصب و قبضہ گیر نے طاقت کے گھمنڈ میں آکر بلوچ قوم کو کچلنے کا آغاز کیا تو نواب اکبر خان کھڑے ہوکر ان کے سامنے دیوار بن گئے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا قومی شناخت اور سرزمین کی حفاظت کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہوئے اپنا تاریخی کردار ادا کیا، بلوچ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جھکنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیا، مٹی کی محبت میں انہوں نے اپنا سب کچھ داو پر لگایا جان، مال، خاندان، اور اپنی بادشاہت تک کو بھی قربان کیا لیکن مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

وطن کے ہم سب قرض دار ہیں لیکن نواب اکبر خان بگٹی و دیگر شہداء نے وہ قرض بھی اتار دیئے جو ان پر واجب نہیں تھے اکبر خان نے اپنا قرض اتار کر ہمیں مقروض کردیا، آج ہم پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شہداء کے فکر کو آگے بڑھائیں، مصلحت پسندی کا شکار نہیں بنیں بلکہ اکبر خان، بالاچ مری، غلام محمد، سنگت ثناء بن کر قبضہ گیریت، نوآبادیت اور سامراجیت کیخلاف جدوجہد کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔