سیاست معروضی حقائق سے نتھی ہے اور حالات کا تقاضہ مسلح جہد ہے ۔ بشیرزیب

550

بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے ایک ہندوستانی میڈیا آوٹ لیٹ “دی پرنٹ” کو دیئے گئے ایک تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے کہ انکے ہتھیار سختی سے سیاسی اصول اور نظریات کے تابع ہیں، سیاسی نظریئے و اصول کے بغیر گوریلہ جنگ محض انتشار ہے۔

‎گذشتہ روز بھارتی جریدے دی پرنٹ میں چھپنے ہونے والے ایک انٹرویو جسے اب تک ہزاروں قارئین سوشل میڈیا پر شائع کرچکے ہیں میں بشیر زیب بلوچ نے کہا ہے کہ “ہماری گوریلہ جنگ جارحانہ نہیں مدافعانہ و سیاسی ہے۔ اگر ہمارا مقابلہ کسی مہذب ملک سے ہوتا، جہاں جمہور کی آواز سنی جاتی تو شاید ہم اپنی آزادی کیلئے غیر متشددانہ طریقہ ہائے کار استعمال کرتے۔ سیاست معروضی حقائق سے نتھی ہوتی ہے اور ہمارے حالات کے مطابق بلوچستان کی آزادی کیلئے سیاست کا واحد طریقہ کار گوریلہ جنگ بچا ہے۔

‎یاد رہے بشیر زیب بلوچ ایک سابق طلبہ رہنما ہیں، وہ چھ سالوں تک بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین رہ چکے ہیں، تاہم اب انکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اسلم بلوچ کے بعد بشیر زیب بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے نئے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔

بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین اور بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف بشیر زیب بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان ایک دہشتگرد ادارہ ہے اور اسکی معاشی اور خارجہ پالیسی دہشتگردی پر مبنی ہے۔ البتہ، اب وقت آچکا ہے کہ مہذب اقوام عالم ایک سخت نقطہ نظر اپناکر، پاکستان کے بلیک میلنگ حربوں کو ہمشیہ کیلئے ایک روک لگا دیں۔

‎بشیرزیب کافی واضح ہیں کہ: “ابتک بلوچوں کو مدد حاصل نا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کو ایک بلیک میلنگ اور فارن پالیسی کے طور پر کامیابی کے ساتھ استعمال کررہا ہے۔ اگر کوئی ہمسایہ ملک انسانیت کے بنیاد پر ہماری مدد کرنا چاہے تو پاکستان اپنے دہشتگرد تنظیموں کے ذریعے سے وہاں معصوموں کی خون کی ندیاں بہادے گا، نیٹو اتحادیوں جیسا کوئی طاقتور مہذب ملک انسانیت کے ناطے بلوچ کی بالفرض مدد کرنا چاہے گا تو پھر پاکستان عالمی دہشتگردوں کو اپنے ہاں پناہ دیکر انہیں استعمال کرکے، افغانستان کو نیٹو کیلئے جہنم بنادے گے۔”

‎زیب، جو ۲۰۱۱ سے مسلح جدوجہد سے منسلک ہیں۔ ان کے بقول“میرے تمام ہم عصر سیاسی ساتھیوں کو شہید کیا جارہا تھا۔ اس کے بعد میرے پاس جدوجہد کا محض ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کروں”، وہ عسکریت پسندی، مسلح جدوجہد اور بلوچستان میں جاری نسل کشی میں پاکستان اور چین کے کردار کے حوالے سے کافی واضح ہیں۔

‎بی ایل اے پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جولائی دو ہزار انیس کو لگائے جانے والی پابندی کے بارے میں انکا کہنا تھا کہ “بی ایل اے بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ایک وسیع اور مضبوط تنظیم ہے، جس کی جڑیں عوام میں ہے، اور عوام ہی ہمارے قوت کا راز ہے۔ بی ایل اے کے کارکردگی پر تب تک اثر نہیں پڑے گا جب تک ہمیں عوامی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو کوئی بھی یہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس پابندی کا بی ایل اے یا بلوچ اور امریکہ کے تعلق سے زیادہ امریکہ و طالبان مذاکرات میں پاکستانی آئی ایس آئی کے کردار سے تعلق ہے۔ پاکستان اپنے پراکسیوں کو مذاکرات کے ٹیبل پر لانے کیلئے معاوضے میں یہ پابندی چاہتا تھا۔ یہاں طنزیہ بات یہ ہے کہ طالبان جیسے ثابت شدہ حقیقی دہشتگردوں سے بات کرنے کیلئے ایک سیکولر تنظیم کو دہشتگرد قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکہ کو مستقبل میں اپنے اس سیاسی غلطی کا احساس ہوگا۔ انہیں اب تک سمجھ لینا چاہیئے کہ پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔”

کہا جاتا ہے کہ بلوچ سیاست سیاسی حکمت عملی کی کمی اور اندرونی تقسیم کی صورت میں رکاوٹوں کا شکار ہے؟

بی ایل اے کے سابق سربراہ شہید جنرل اسلم بلوچ اور ڈاکٹراللہ نظر بلوچ کی کوششوں سےگذشتہ سال “براس” کا قیام عمل میں آیا۔ اس میں ابتک چار جماعتیں شامل ہیں، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈ۔اسکا بنیادی مقصد بلوچ مسلح تنظیموں میں اشتراک عمل پیدا کرنا، دشمن پر یک قوت ہوکر حملے کرنا، باہمی اختلافات کو حل کرنا، بلوچ قوت میں اتحاد کے ذریعے اضافہ کرنا اور ایک ایسے پلیٹ فارم کی تشکیل جو وقت کے ساتھ تمام آزادی پسند بلوچ قوتوں جوڑ کر بلوچ قومی فوج کی تشکیل ممکن بناسکے۔

‎لیکن مسلح جدوجہد بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی؟

‎بلوچ آزادی کی جدوجہد کے پاس باقاعدہ قائم شدہ اور بہت ہی واضح سیاسی حکمت عملی موجود ہے اور یہی بلوچ قومی تحریک کی لگاتار کامیابیوں کی بنیادی وجہ ہے۔ ہم مسلح جدوجہد کو ایک سیاسی طریقہ کار سمجھتے ہیں۔ ہماری تحریک کی جڑیں سیاسی نظریئے پر قائم ہیں۔ جب پر امن سیاست کی راہیں مسدود ہوں تو پھر سیاست بندوق سے ہوتی ہے اور ہماری بندوق ایک سیاسی نظریئے و اصول کے تابع ہے۔ سیاسی نظریئے و اصول کے بغیر گوریلہ جنگ محض انتشار ہے۔ ہماری گوریلہ جنگ جارحانہ نہیں مدافعانہ و سیاسی ہے۔

اگر ہمارا مقابلہ کسی مہذب ملک سے ہوتا، جہاں جمہور کی آواز سنی جاتی تو شاید ہم اپنی آزادی کیلئے غیر متشددانہ طریقہ ہائے کار استعمال کرتے۔ سیاست معروضی حقائق سے نتھی ہوتی ہے اور ہمارے حالات کے مطابق بلوچستان کی آزادی کیلئے سیاست کا واحد طریقہ کار گوریلہ جنگ بچا ہے۔

‎آپ کو سیاسی ہدایات کون فراہم کرتا ہے؟

‎جہاں تک مشترکہ سیاسی کمانڈ کی بات ہے ، تو وہ براس کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اس وقت، ایک بہت بڑی تعداد میں بلوچ جہدکار پڑھے لکھے اور سیاسی شعور سے لیس نوجوان اور دانشور ہیں۔ آج بلوچ مسلح جہد میں اکثریت ان جہدکاروں کی ہے، جن کی پرورش سیاسی اداروں سے ہوئی ہے۔ ہمارے تمام رہنماوں کو سیاسی علم پر گہری بصیرت حاصل ہے اور ہم نے بیس سالوں سے تحریک کو کامیابی سے چلاتے ہوئے اس میں بہتری بھی لاتے رہے ہیں۔ در حقیقت، آج کے آزادی پسند سپاہیوں میں پوری قابلیت موجود ہے کہ وہ ایک آزاد بلوچستان کے بیوروکریسی، انتظامیہ اور فوج کو چلا سکیں۔

‎تو بلوچ قومی رہنماوں کے درمیان کوئی اختلاف موجود نہیں؟

‎بلوچ رہنماوں کے درمیان کوئی سنگین قسم کے سیاسی اختلافات موجود نہیں ہیں، براس کے صورت میں پہلے سے ہی اسٹیکل ہولڈرز کی ایک بڑی اکثریت ایک اتحاد کی صورت میں ساتھ ہیں، باقی لیڈران کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات ہیں اور اتحاد پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ کچھ نقاط ایسے ہیں جن پر ہم سب متفق ہیں، جیسے بلوچستان کی مکمل آزادی، سیکولر و جمہوری ریاست کا قیام، دوست اور دشمن بھی تقریباً ہمارے سب کے ایک ہی ہیں۔

‎گذشتہ چند سالوں میں سب سے اہم دشمن چائنہ دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی پابندی کے بیان میں بی ایل اے کی جانب سے چائنیز کونصلیٹ کراچی پر نومبر ۲۰۱۸ میں حملہ اور گوادر پرل کونٹینٹل ہوٹل پر ہونے والے رواں سال مئی کے ماہ میں ہونے والے حملے کا ذکر شامل تھا۔ ایسا کیوں ہے کہ بی ایل اے صرف چینی مفادات پر حملہ کررہی ہے؟

چین، بلوچستان پر قابض پاکستان کے ساتھ ملکر ایک طرف ہمارے قیمتی معدنیات لوٹ رہا ہے، اپنے اقتصادی و عسکری توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے ہمارے اہم بندرگاہوں پر قبضہ کررہا ہے تو دوسری طرف بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے ہمارے دشمن پاکستان کی معاشی و عسکری کمک کررہا ہے۔ اس لیئے صرف آج سے نہیں بلکہ 2004 سے ہی ہمارے حملے چینی مفادات پر شروع ہوچکے تھے۔ لیکن حالیہ سالوں میں دیکھا گیا کہ چین اپنے منصوبوں میں نا صرف ہوشربا تیزی لارہا تھا بلکہ بلوچ نسل کشی تیز کرنے کیلئے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا اسلیئے، چینی پیش قدمی روکنے کیلئے ہمیں اپنے حملوں میں تیزی لانا پڑا، جس میں شاید آئیندہ مزید تیزی لائی جائیگی۔

“فرانسیسکو مارینو ایک مصنفہ اور جرنلسٹ ہیں”