ریحان، ایک قابل فخر حوالہ
بیرگیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی تحریک کے مختلف مراحل و تقاضے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا مقصد، کوئی کام کیوں کیا جائے؟ دوسرا معاشرے کو آگاہ کرنا، تیسرا اس کام کیلئے میدانِ عمل میں نکلنا اور ثابت قدمی سے اس تحریک کو شرمندہِ تعبیر کرنے کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا، چاہے مالی ہو یا جانی۔ اور کسی بھی تحریک میں آخری مرحلہ ہتھیار اُٹھانے کا ہوتا ہے، ہتھیار دفاع کیلئے اُٹھائی جاتی ہے، تبدیلی اذہان میں آتی ہے، ذہنی طور پہ تبدیل شدہ افراد جب تبدیلی کیلئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو شرپسند غاصب عناصر انکے راستے کی دیوار بنتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح حضرت امام حسین نے آمریت کا بت توڑا اور تاریخ ہی ہمیں مارکس، اینگلس، لینن، روزالکسمبرگ، گرامچی سے ہوتا ہوا ہوچی منہ، بن بیلا ، نیلسن منڈیلا سے ملاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے روح انقلاب کو زندہ رکھا جو آج بھی دنیا میں جاری تحریکوں میں ان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
یہی جھلک ہم بھگت سنگھ میں دیکھتے ہیں کہ اس کے شعور نے اسے 18 سال کی عمر میں ہی یقین دلایا تھا کہ صرف مسلح جدوجہد کے ذریعے ہی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا جاسکتا ہے اور اس نے یہ شعوری طور پر منصوبہ بنایا کہ انڈین قانون ساز اسمبلی پر بم پھینکے جائیں۔ وہ اپنی زندگی کا عظیم مقصد جان چکا تھا۔ 23 مارچ 1931ء کی صبح بھگت سنگھ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھا تو بھگت اور ان کے ساتھیوں نے نہ سیاہ نقاب پہنا اور نہ ہاتھ باندھنے دیا، وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے بخوشی پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھ گئے اور پھر ان نعروں کی گونج جیل کی دیواروں سے نکل کر فضاؤں میں پھیل گیا۔
انقلاب کی یہ گونج ہمیں کیوبا میں عظیم چی گویرا کی جدوجہد میں سنائی دیا اور یہ گونج دنیا بھر کے انقلابیوں کے دل کی دھڑکن بن گئی۔ چی گویرا نے 24 سال کی عمر میں ہی اپنے حیرت انگیز کارناموں سے جو کردار ادا کیا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئے۔ چی گویرا کو سامراج کے خلاف لڑائی میں اپنے مارے جانے کا ادراک تھا اس نے کہا تھا
“موت ہمیں کہیں آئے مسکرا کر اس کا استقبال کریں گے مگر شرط یہ ہے کہ ہماری بندوقوں کو اٹھانے کے لیے نوجوان انقلابی آگے بڑھیں ہماری میتیں ماتم کے بجائے انقلابی نعروں اور گولیوں کی گونج میں اٹھائی جائیں۔ ”
10 اکتوبر 1967 کو دنیا کی تاریخ یہ گواہی دیتا ہے کہ چی گویرا جیسے لوگ ہی محروم اور پسماندہ افراد کی بہتری کے عظیم مقصد کی خاطر اپنا تن، من ،دھن سب کچھ قربان کردیتے ہیں اور وہی عظیم کہلانے کے حقدار ٹہرتے ہیں، ہر آنے والا دن لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت بڑھاتا ہے۔
بلوچ قوم خوش قسمت ہیں کہ ایسے عظیم سپوتوں کی قربانیوں سے عبارت ہے جنہوں نے ظالم و جابر کے سامنے ہمیشہ تاریخ رقم کی۔ بلوچوں کی تاریخ ہے کہ آرین حملوں 1500 ق م سے لیکر موجودہ جاری بلوچ قومی آزادی کی تحریک تک بلوچ فرزندان اپنے وطن کی دفاع کی خاطر آج بھی عالمی طاقتوں سے نبردآزما ہے۔
شہید ریحان اسلم ، بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک قابل فخر حوالہ ہے، جنہوں نے 11 اگست 2018 کو پاکستان اور چینی سامراج کے استحصالی منصوبوں پر “فدائی حملہ” کرکے بلوچ قومی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا۔
شہید ریحان نے اپنی قربانی سے یہ عیاں کردیا کہ ان کے عظیم والد شہید جنرل اسلم کی اپنی سرزمین بلوچستان سے بے پناہ محبت اور اماں یاسمین ہمت و بہادری کے بہترین مثال ہے اور دنیا کو یہ بتادیا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ شہید ریحان اسلم نے نو عمری میں ہی اتنا بڑا قدم اٹھا کر یہ باور کرایا کہ” میں مظلوم و محکوم کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کے صف میں شامل ہوں “میں حکمران طبقے اور سامراجی استحصالی منصوبوں کے خلاف عملی اور شعوری بنیادوں پر کھڑا ہوں۔ اسے یہ پتہ تھا کہ موت سے اس کا سامنا ضرور ہوگا لیکن اس نے اس کا وقت اور جگہ خود ہی متعین کیا اور تاریخ میں خود کو ان عظیم شخصیتوں کی لڑی میں خود کو پرو دیا اور یہ ثابت کردیا کہ انسانی شعور اگر بلندیوں پر پہنچ جائے تو اس کے لئے موت کوئی معنی نہیں رکھتا۔ شہید ریحان اسلم کی شہادت پر مجھے شہید صدیق عیدو کے یہ الفاظ یاد آگئے۔
” میں اپنی اس نسل کودیکھتا ہوں تو میرے خیالوں کی دنیا میں ہزاروں سوال جنم لیتے ہیں۔ ذاتی خواہشات، مفاد پرستی، منافقت لیکن اس نسل میں ایسا بھی گروہ ہے جو آنے والی نسل کے لئے قربانی دے رہی ہے۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔