بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل وسینیٹر ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے سلسلے کو اگلے پانچ دہائیوں تک ضعیف اور ختم نہیں کیا جاسکتا، ملک میں نہ صرف قومی یکجہتی کا فقدان ہے بلکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات خراب ہیں، ملی نغمات اور جذباتی تقاریر کے ذریعے جذبہ حب الوطنی کو پروان نہیں چھڑایا جاسکتا، ہم احتساب کے حامی ہیں لیکن احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست قابل قبول نہیں، ایک کمیشن بنا کر وہ وجوہات معلوم کی جائیں کہ پارلیمانی سیاست کرنے والے آخر آزادی کی بات کیوں کررہے ہیں۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں وکلاء تنظیموں کی جانب سے منعقدہ آل پاکستان لائرز کنونش سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور شہید وکیل سنگت بلوچ ایڈووکیٹ کے والد سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے سانحہ 8 اگست 2016ء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں پورا سسٹم بگڑ چکا ہے نہ صرف فرقہ واریت عروج پر ہیں بلکہ اقوام اور قبائل کے درمیان نفرتیں بھی سب کے سامنے ہیں ہمیں ایک کمیشن بنا کر سوچنا ہوگا کہ آخر دہشت گردی، فرقہ واریت اور ان نفرتوں کے پروان چھڑنے کی وجوہات کیا ہیں؟ بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک ہم قومی یکجہتی بھی پیدا نہیں کرسکے ہیں بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص خود کو محفوظ نہیں سمجھتا کیونکہ مساجد، بازار، خانقاہ سمیت کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں دہشتگردی کے واقعات نہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کو ختم کرنے کیلئے کوششوں کی بات کی جاتی ہے میں نے یہ بات پارلیمنٹ میں بھی کہی آج یہاں بھی اس بات کا ذکر کررہا ہوں کہ دہشتگردی کا سلسلہ چاہے جس نے بھی شروع کیا ہے یہ آئندہ پانچ دہائیوں تک ضعیف یاختم نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ملی نغموں اور جذباتی تقاریر سے جذبہ حب الوطنی کو پروان نہیں چڑھایا جاسکتا بلکہ ہمیں سوشیو اکنامک اور چیلنجز سے نکلنے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی، ہم احتساب کے حامی ہے لیکن احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست کا خاتمہ ضروری ہے جس ملک میں وزیراعظم اور دیگر یہ دعوے کرتے دکھائی دیں کہ فلاں کو نہیں چھوڑیں گے اور فلاح کو جیل کی ہوا کھلائیں گے وہاں بلاامتیاز احتساب کی کوششوں اور دعوؤں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک کو سیاسی،سماجی اور اقتصادی طورپرمضبوط کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں کشمیر اور فاٹا کی صورتحال پر بھی توجہ دینا ہوگی، آخر یہاں پارلیمانی سیاست کرنے والوں نے آزادی کا نعرہ کیوں لگایا اس سلسلے میں غور و فکر اور سوچ وبچار ہونی چاہیے، جذباتی نعروں اور باتوں سے ریاست نہیں بنا کرتی ہم ہمیشہ سے انصاف کے حامی رہے ہیں، انصاف سب کو ملنی چاہیے ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بھی انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔