تیکھی خبر
میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آپ نے اکثر ہی سنا ہوگا جن باتوں میں جتنا زیادہ مصالحہ ہو خبر بھی اتنی ہی تھیکی اور دلچسپ بنتی ہے۔ جیسا کہ لندن میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صحافی کے ہاتھوں بے عزتی کی خبر انتہائی دلچسپ اور تھیکی تھی اور اس خبر کو پاکستانی صحافی برادری سمیت سبھی لوگ اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ سے شیئر کرکے وائرل کررہے تھے۔ لیکن بعد ازاں جب انہیں یہ پتا چلا کہ جس شخص نے سوال اٹھائے اور شاہ محمود قریشی کی بے عزتی کی وہ در حقیقت دائیں بازو کے سیاست کا حامی ہے تو سبھی حیران و پریشان رہ گئے۔
ٹھیک اسی طرح جب عمران خان نے امریکہ میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں میڈیا مغربی ممالک سے زیادہ آزاد ہے تو اس خبر کی تپش اور اس میں موجود تھیکے پن کی وجہ یہ خبر تمام لوگوں کیلئے موضوع کبیرہ بن گیا (یہاں وہ لوگ زیر بحث نہیں جنہیں اپنے لیڈر کا گوبر بھی حلوہ لگتا ہو)۔ اب آپ سوچیئے جس موضوع پر حامد میر و وسعت اللہ خان سمیت ان جیسے دیگر نامور صحافی و تجزیہ نگار جب تجزیات کرنے لگے، جب بی بی سی، وائس آف امریکہ اور ڈی ڈیو جیسی عالمی میڈیا پر عمران خان کے بیان کی دھجیاں اڑائی جائیں اور اسی دوران سابق امریکی فوجی جنرل اور پاکستان مخالف لارنس سیلن کے ٹویٹز اور تجزیات کو صرف اسی لئے پاکستان میں پذیرائی مل جائے کیونکہ وہ حکومت مخالف موقف سے مماثلت رکھتی ہو۔ پھر اسی دوران جب خبر کا مصالحہ کم ہونے لگے تو ایک صحافی کا لوگوں یاد دہانی کرانا کہ لارنس سیلن کو سپورٹ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے زمرے میں آنے کے مترادف ہے تو وہ لوگ جو مصالحہ کے پیچھے دوڑتے ہیں پھر پریشان ہوجاتے ہیں۔
بلکل اسی طرح جب پنجاب کی موجودہ لیڈر اور مریم نواز کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز جب بلوچستان پہنچتی ہیں تو وہ ایک بلوچی لباس پہن کر بلوچستان کے عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ دیکھو میں بھی بلوچوں سے محبت کرتی ہوں۔ یہ سب دیکھ خصوصی طور ایک بڑی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو مریم نواز کے لباس اور انکے اسٹائل سے نہ صرف لگاؤ ہونے لگا بلکہ مریم نواز لوگوں کے سوشل میڈیا اکاونٹ کی زینت بننے کے ساتھ اسٹوریز و پروفائل پکچر پر بھی راج کرنے لگی۔
نوجوان اس خوشی سے جھوم ہی رہے تھے کہ اگلے ہی لمحے محترمہ مریم نے بلوچوں کو سنہ انیس سو اٹھانوے میں انکے والد کی جانب سے کیئے جانے والے ایٹمی تجربات پر انکا شکریہ ادا کرنے کا کہتے ہوئے بلوچستان کے عوام سے یہ بھی سوال کردیا کہ کیا آپ اردو سمجھتے ہو؟
اب جن لوگوں کو پنجابی طرز سیاست اور انکی منافقت، چالبازیوں اور سازشی حربوں کی خبر ہے، وہ تو نہ مریم کی لباس سے متاثر ہوئے نہ ہی انکی مسکراہٹ سے بلکہ انہوں نے مریم کے بارے میں نہ صرف اپنے تحفظات اظہار کیا بلکہ بلوچ قومی موقف یعنی آزادی کے حوالے سے حقیقی موقف پیش کرکے انہیں یہ پیغام دیا کہ بلوچستان میں قابض چاہے جس بھی شکل میں قدم رکھے وہ قابض ہی کہلائے گا۔
لیکن مصالحے سے بھرپور خبروں کا سلسلہ یہیں تک ہی نہیں رکا، اسی دوران پنجابی سامراج کو خوش کرنے کیلئے ایک اور پیادے یعنی ثنا بلوچ نے پنجابی بیوروکریسی کو خوش کرنے کی خاطر قابض فورسز کے اہلکاروں کو سرخ سلام پیش کرکے اپنے ہی وطن پر قربان ہونے والے جانباز سرمچاروں کیخلاف منافقانہ طرز سیاست کرکے بلوچ قوم کو انتہائی غم و غصے میں مبتلا کردیا، جس کے جواب میں ثنا بلوچ کو انتہائی سخت ترین سیاسی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی دوران اس خبر کے تھیکے پن کو بھانپتے ہوئے نیشنل پارٹی کے چالبازوں نے بھی بی این پی پر تنقید کرنا شروع کردیا، جن کی اپنی پارٹی بھی بلوچ قومی کارکنوں کے اغواء اور قتل پر خاموش تماشائی بننے کی قیمت ڈھائی سال صوبائی حکومت کا مزہ لینے کی صورت میں لے چکی ہے۔ اس تمام صورتحال کو بلوچ قومی کارکنان اور رہنماوں نے نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ وہ اس تمام منافقانہ طرز سیاست سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر مزاحمتی سیاست کو ہی اپنا بہتر اور موثر سمجھ کر جدوجہد کررہے ہیں۔
ان تمام واقعات و حالات کا ذکر کرنا یوں بھی ضروری تھا کہ ہم کس خبر کو اور کیوں دیکھتے ہیں، یقینی طور پر تمام لوگ ان ہی خبروں کو دیکھتے ہیں جن میں کچھ مصالحہ ہو جس میں کچھ تھیکہ ہو سنسنی خیز تہلکہ مچا دینی والی خبر ہو۔
اسی طرح کی ایک خبر امریکہ سے بھی موصول ہوئی تھی جب بلوچ مزاحمتی تنظیم پر پابندی لگائی گئی تھی۔ جس سے بی ایل اے کے جنگی ساتھیوں کے کاروائیوں، انکے کارکردگیوں، انکے اعمال، قول و فعل، یہاں تک کے انکے فولادی مضبوط ارادوں میں کسی طرح کا کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملا۔ لیکن دوسری جانب چونکہ یہ ایک ایسی خبر تھی جسے موڑنے کی بہت کوشش کی گئی۔ بیانات جاری کروائے گئے۔ امریکہ کے نام پر چین اور پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہم اس جنگ کا حصہ نہیں جو چین کیخلاف چھیڑی گئی ہے۔ ہم تو بلکہ ان لوگوں کو جانتے بھی نہیں اور اب تو ہماری ایک سیاسی تنظیم بھی جس کا کام صرف ایک شخص کو تاحیات سربراہ بنائے رکھنا ہے۔ جس میں جمہوریت کے نام ڈکٹیٹر شپ کی جائے گی۔ اور پھر بلوچ آزادی پسند مزاحمتی لیڈران کو یہ پیغام دیا جائیگا کہ وہ اپنے تمام تر طاقت کا مالک ایک شخص کو قرار دیکر جس کی ذاتی کارکردگی صفر ہونے کے باوجود بھی وہ اس لیئے تمام طاقتوں کا اہل ہے کیونکہ وہ ایک نوابزادہ ہے اور موروثی سیاست کے بدولت اس پر قبائلی رہنمائی کے ساتھ ساتھ لیڈر شپ کا بھوت سوار ہوا ہے۔
مگر شاید اپنے انتہائی غیر فعال کردار اور غیر سیاسی تنظیم کا تا حیات صدر یہ بھول چکا ہے کہ نہ صرف ہائی کمان ختم ہوچکا ہے بلکہ اب حفیظ حسن آبادی جیسے ڈبل ایجنٹ بھی اسکی ڈوبتی ہوئی کشتی کو نہیں بچا سکتا۔ جہاں تک سوال ہے قومی اتحاد اور یکجہتی کے مظاہرے کی تو یہ بات ان تمام قوتوں کو ذہن نشین کرنا چاہیئے، شہید ریحان کی شہادت کا مزاق اڑانے والوں ، شہید ازل، رازق و وسیم کی کاروائی پر دشمن کے طرز کا تبصرہ کرنے والوں، یہاں تک کہ جنرل اسلم اور ساتھیوں کی شہادت کے عظیم سانحہ پر خاموش مجرم کا کردار ادا کرنے والوں گوادر پرل کانٹینٹل ہوٹل پر ہونے والے حملے اور بعد ازاں امریکی رد عمل پر غدارانہ طرز بیان رد انقلابی طرز زبان اور دشمن کے بیانیہ کو ترویج دینے والوں کے ساتھ شہید اسلم بلوچ کے ساتھی کسی بھی صورت میں اتحاد تو کجا ان سے کسی بھی حوالے کوئی بھی تعلق نہیں رکھینگے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔