افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے ایک اور قریبی ساتھی ملا محمد اعظم اخوند کو آج بلوچسان کے علاقے کچلاک میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ وہ کچلاک کے ایک مقامی دینی مدرسے کے سربراہ تھے۔
پولیس حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے مبینہ طالبان کمانڈر پر موٹر سائیکل پر سوار افراد نے نائن ایم ایم پسٹل سے فائرنگ کی جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے مبینہ طالبان کمانڈر ملا محمد اعظم کی لاش جب کوئٹہ سول اسپتال منتقل کی گئی تو لواحقین نے میڈیا کو مقتول کا چہرہ دکھانے اور کوریج سے روکنے کی بھی کوشش کی۔
پولیس حکام کے مطابق ملا اعظم کو اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ ایک مقامی دکان میں موجود تھے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے دعوٰی کیا ہے کہ گزشتہ روز کچلاک مدرسے پر بم حملے میں ملوث گروہ کے ایک اہم رکن کو پکڑ لیا گیا ہے۔ طالبان کے مطابق گزشتہ روز کے مبینہ حملہ آور بم دھماکے سے متاثرہ دینی مدرسے کا چوکیدار ہے، جس سے وہ ریموٹ بھی برآمد ہو گیا ہے، جسے بم دھماکے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق پکڑا گیا مبینہ حملہ آور بھی ایک افغان شہری ہے اور وہ افغان فوج سے منسلک رہ چکا ہے۔ طالبان نے اپنے دعوے میں واضح کیا ہے کہ سابق افغان فوجی اہلکار کی مدرسے میں بطور چوکیدار تعیناتی کے حوالے سے بھی مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم طالبان کے ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے ابھی تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ طالبان کے ہاتھوں مدرسے پر حملے میں ملوث مبینہ حملہ آور کی گرفتاری کے حوالے سے پاکستانی سکیورٹی حکام نے تاحال کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے۔
پولیس حکام سے کوئٹہ میں رابطہ کیا تو انہوں نے اس کارروائی کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا۔
اسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر ڈاکٹر راشد احمد کے بقول افغان طالبان پر بلوچستان میں ہونے والے حالیہ حملوں سے طالبان قیادت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”افغان طالبان پر یہ تازہ حملے ایک غیرمعمولی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے طالبان رہنماؤں کو، جو عناصر نشانہ بنا رہے ہیں، وہ یہ نہیں چاہتے کہ افغان امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو۔ طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان مذاکرات میں کافی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اسی لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ اس امن عمل میں رکاوٹیں حائل کی جائیں۔‘‘
افغان حکومت کے کچھ دھڑےمسلسل یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ پاکستان طالبان کو معاونت فراہم کرتا رہا ہے ۔ ڈاکٹر راشد کے بقول، ” ان تازہ حملوں کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کی پشت پنائی پاکستان میں ہی کی جا رہی ہے۔ اسی لئے انہیں وہاں گرفتار نہیں کیا جا رہا۔‘‘
کچلاک کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس، پشتون آباد ، پشین، سرخاب، یارو، کلی تراٹہ اور بعض دیگر علاقوں میں بھی افغان طالبان کی موجودگی کی اطلاعات تسلسل کے ساتھ سامنے آتی رہی ہیں۔
افغان حکومت ماضی میں الزام عائد کرتی آئی ہے کہ افغانستان جنگ کے دوران زخمی ہونے والے افغان طالبان کو بھی علاج معالجے کے لئے اکثر اوقات حلیے تبدیل کر کے کوئٹہ منتقل کر دیا جاتا ہے۔