ایک موت جو فخر اور حوصلے کا باعث بنی – حمید سبزوئی

617

ایک موت جو فخر اور حوصلے کا باعث بنی

حمید سبزوئی

دی بلوچستان پوسٹ

”ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کا حصہ نہیں ہیں اور ہم ایران اور افغانستان کی طرح مختلف ہیں اورہم میں اور پاکستان میں صرف ایک مشترکہ قدر، مذہب ہے۔ یہ اصول تو ایران اور افغانستان پر بھی لاگو ہوتا ہے توپھرانہیں بھی پاکستان میں شامل کریں۔ کیا ہمیں صرف اس لئے پاکستان میں شامل کیا جارہا ہے کہ ہم اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کرسکتے؟“ یہ نوجوان غوث بخش بزنجو کے الفاظ تھے جوانہوں نے آزادی کی قرار داد کے حوالے سے کہے تھے۔ بلوچوں نے یہ آزادی تو محض 9ماہ دیکھی مگر یہ الفاظ کسی وعدے کی طرح آج بھی بلوچستان کوایک اُمید اورامکان دکھارہے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کا قتل اِن الفاظ کی باز گشت ہی تو ہے۔

مطالعہ،کرکٹ اور سبزیوں کے شوقین بگٹی، بلوچوں کے سرداروں میں وہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے شخص تھے۔ جو ٹی وی پر بھی صرف نیشنل جیوگرافک چینل دیکھتے تھے۔ تاریخ سے بے حد دلچسپی رکھنے والے اورناپ تول کربولنے والے یہ نواب بلوچوں کے ایسے شہید ہیں جنہوں نے اپنی سرزمین کے لئے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔ پندرہویں صدی کا چاکر خان پنجاب میں طبعی موت مرا تھا اور نوروز خان نے قرآن کے نام پر گرفتاری دی تھی۔ یہ اوربات ہے کہ اس وقت کے حکمرانوں نے پاک کتاب پر نئے کپڑے کا غلاف چڑھا کر نوروز خان کو بیٹوں سمیت حیدرآباد سینٹرل جیل میں ڈال دیا تھا۔

26اگست کی رات کو بلوچ روایت، رواج اور اقتدار کے اس امین کو 79برس کی عمر میں ہمیشہ کے لئے گہری نیند سلادیا گیا، جو کروڑوں انسانوں میں سے انگلیوں پر گننے جیسے لوگوں میں سے تھے،جو24گھنٹوں میں نصف گھنٹہ بھی نہیں سوسکتے تھے، دودایوف اور چے گویرا کی طرح مارے گئے۔ نواب بگٹی عجیب تضادات کا مجموعہ تھے۔ اکیسویں صدی کے جدید اقدار سے باعلم ہونے کے باوجود وہ اس راج کے سردار تھے جو عملی طور پر پندرہویں صدی میں رہنے والے اور کمیون کی زندگی گزارتے ہیں۔ جہاں قبیلے کا وقار اور عزت ہر شے سے بالاتر ہے۔

وہ زرتشت مذہب کی آخری نشانی، آگ پر ہر قسم لیتے تھے اور بکری کی ہڈی پر پیشن گوئی کرتے تھے۔ حالانکہ وہ منطقی سوچ کے مالک اور اینتھراپولوجی کے ماہر تھے۔ انسانی ارتقا کے ڈارون کے نظریے سے متفق، ایک سیکولر انسان تھے۔ ڈیرہ بگٹی کے قلعہ نما گھر میں رہنے والے بگٹی کو مغل بادشاہوں کی طرح عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔ لیکن شادیاں انہوں نے فقط تین کی تھیں۔ جسے انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے دور کی خوبرو میزبان سے مسکراتے ہوئے ”ڈیڑھ شادیوں“سے تعبیر کیا تھا۔

اس بات پر کبھی بحث ہوگی کہ اس انسان کی زندگی کیسے گزری یا اس نے موت کو خوش آمدید کیسے کہا؟ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ حق بات کہنے اور حق، سچ اور وطن کے لئے کھڑے رہنے والے ”روزِ حساب“ کی گھڑی میں کون میدان پر کھڑا رہا یا اگلے دن مرنے کا انتظارکیا۔ نواب بگٹی نے 80برس کی عمر میں بھی جنگ کا طبل بجایا تو نوجوانوں کی طرح لڑتے ہوئے موت کوخوش آمدید کہا۔ جوانوں کی طرح موت اس کی طرف بڑھ کر آئی تھی نہ کہ بوڑھوں کی طرح جو کہ خود کو موت کی طرف چل کے جاتے ہیں۔

محراب خان کے بیٹے اور شہباز خان کے پوتے، اکبر خان،بگٹیوں کے 19ویں سردار تھے۔ وہ سائیں جی ایم سید کی طرح بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے اورسید کی طرح اُن کی ملکیت کورٹ آف وارڈز کے ہاتھ رہی۔ شاید یہ بات بھی دونوں میں مشترک ہے کہ دونوں علامہ آئی آئی قاضی کے شاگرد تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نواب بگٹی نے باقاعدہ سبق لیا تھا جبکہ سید نے علامہ صاحب کی محفلوں اورخطبوں سے درس لیاتھا۔ اپنے طے کردہ نتائج اور فیصلوں پر اٹل رہنے کا وصف بھی شاید دونوں میں مشترک تھا۔ یہ اور بات ہے کہ سید جس موت کے لئے عمر بھر ترستے رہے، نواب بگٹی کے نصیب میں وہی موت آئی۔ سید نے ایک دفعہ سندھ یونیورسٹی کے ایک اُردُو بولنے والے کانگریسی استاد قاضی مرتضیٰ سے کہا تھا کہ ”پنجاب والے اگر پھانسی دے دیں تو اپنی عید ہوجائے گی۔

جب اُن کے قابل، باصلاحیت اور نوجوان بیٹے سلال اکبربگٹی ایم اے جناح روڈ کوئٹہ میں کلپروں کے حملے میں مارے گئے تو اس بیٹے کی موت نے انہیں اندر سے کمزور کردیا اور انہوں نے ڈیرہ بگٹی سے نکلنا اور چارپائی پر سوناچھوڑ دیا تھا۔ اوراپنی چادر کے پلو میں مٹی، قسم کے طورپر باندھ دی تھی کہ جب تک اپنے بیٹے کا انتقام نہیں لوں گا، تب تک سکھ کاسانس نہیں لوں گا۔ گوکہ تیل اورگیس کی دولت سے مالامال سوئی کا علاقہ ایک لحاظ سے خوشحال اورحساس مقام پر واقع تھا۔ اور دو لاکھ بگٹیوں کے سیاہ وسفید کے مالک نواب اکبر بگٹی، سوئی کے ”بادشاہ“کے مقام پر فائز تھے، جو بات اسٹیبلشمنٹ کے لئے ہضم کرنا بہت مشکل تھا۔ سرکار نے70 ء کی دہائی کے آخری برسوں میں بگٹی کوکمزور کرنے کے لئے کلپروں کی پشت پناہی شروع کردی۔ جو بگٹیوں میں عددی اعتبار سے اکثریت میں ہیں اوران کی زمینیں سوئی کے آس پاس میں ہیں۔ نواب اکبر خود بگٹیوں کے راہجہ قبیلے میں سے تھے جسے حیثیت اور مرتبے میں سب سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ 77ء کی دہائی کے انتخابات میں نواب بگٹی نے ایم این اے ہونے کے باوجود الیکشن کا بائیکاٹ کیا، جس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے عبدالقادر راہجہ بگٹی اور امیر حمزہ کلپر بگٹی بنا مقابلہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔

اس کے بعد 1981میں خان محمد کلپر کا بیٹا امیرحمزہ کلپر ضلعی کونسل کی چیئرمین شپ کا امیدوار تھا۔ جس پر پہلے ہی سلیم اکبر بگٹی کی نظریں تھیں۔ پولنگ کے روز جھگڑے کے دوران امیرحمزہ مارا گیا، جس کے بدلے میں سلال بگٹی کو قتل کیا گیا اور کلپر ڈیرہ بگٹی چھوڑ گئے۔ نصیرآباد اور ملتان میں سرکاری خرچ اور نگہبانی میں پندرہ سال گزارنے کے بعد حال ہی میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے تب ڈیرہ بگٹی میں آکرآبادہوئے، جب انہوں نے نواب اکبربگٹی کے تمام خطرات اور خوف کو بالائے طاق رکھ کر پہاڑوں کے دامن میں جاگزیں ہوئے تھے کہ ہنگری کے شاعرپتوفی کی طرح انہیں بھی بستر پر آنے والی موت سے نفرت تھی۔

وفاقی وزیر بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہنے والے اکبربگٹی خود تو اس ملک سے 20برس بڑے تھے لیکن اُن کی نوابی کی عمر بھی خاصی بڑی تھی۔ بہرحال یہ کوئی انگریزحکمرانوں جیسی اخلاقی جرات کا حامل ملک بھی نہیں ہے جہاں ویت نام کے حق میں مظاہرے کی قیادت کرنے والے رہنما کو چند گھنٹوں تک تحویل میں لینے کے بعد ان سے معذرت کی گئی تھی، بلکہ یہاں تو لاٹھی کے سہارے چلنے والے 80سالہ بزرگ سیاستدان کو گولیوں کا نشانہ بنایاگیا۔ یہ اوربات ہے کہ بلوچستان کے نصیب میں آنے والے اس ہیرو کی موت’جاگتے رہنا‘ کی صدا کی مانندہمیشہ تازہ رہے گی اور حوصلے کا باعث بنتی رہے گی اور رول ماڈل کی روشنی دیتی رہے گی۔ اور جب بھی اس کی تُربت پر بوندیں برسیں گی،میلہ لگے گا اور نوجوان اُس کی قبرکی مٹی کو سرمہ کرکے آنکھوں میں پہنیں گے۔ تو یہ بات باعث حیرت نہیں ہوگی کہ اندر سے آواز آرہی ہوگی ”میری قبر پر سرخ جھنڈا لہرانا، اپنے وطن پہ سر قربان کرکے جنت کو جارہا ہوں۔“

(25ستمبر2006ء)


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔