اکبر خان جس نے وقت اور تاریخ کو اپنے تابع کیا
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اکبر خان جس نے وقت اور تاریخ کو اپنے تابع کیا، عمر کے آخری حصے تک دراز قد، سفید بال، مونچوں کو تاو دیکر بلوچی ثقافتی چٹائی پر براجمان یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ تاریخ و سیاسیات کا طالبعلم اکبر بگٹی تھے، جو ہر صبح کی ابتداء عوامی کچاری سے کرتے تھے۔ قرب و جوار سے آنیوالے مہمانوں سے حال حوال کرتے، مہمان ملاقات کی وجہ بیان کرتے، مہمانوں میں، زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے، صحافی، سیاسی، قبائلی افراد ہوتے تھے، علاقائی و عالمی سیاسی صورتحال پر سیر حاصل بحث ہوتی رہتی، لوگوں کے مسائل سنے جاتے اور نواب صاحب اور انکے رفقاء حل پیش کرتے رہتے۔ یوں بلوچستان کے اس مشرقی کونے ڈیرہ بگٹی و سوئی جہاں انیسو باون میں سوئی گیس دریافت ہونے کے بعد قابض سرکاری حکام کا آنا جانا بڑھ چکا تھا۔ مقامی قبائلیوں کو نوکری، اسکول و ہسپتال و دیگر بنیادی سہولیات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ غیر مقامیوں نے اکبر خان کے ساتھ وعدہ خلافی کرنا شروع کردی تھی۔ اکبر خان ہمیشہ ریاستی عہدوں پر براجمان رہنے کے باوجود اپنی قوم پرست سوچ کیوجہ سے ریاستی اسٹیبلیشمنٹ کے آنکھوں میں کھٹکتے رہے، مختصر وقت کیلئے خارجہ امور سمیت، گورنر کے عہدوں پر بھی سرکار کی نمائندگی کرتے رہے، لیکن سرکار سے انکے تعلقات اکثر اختلافات کے زد میں رہے، جیل و زندان میں پابند سلاسل کیئے گیے۔ قبائلی جنگوں میں الجھائے گئے۔ قریبی رشتہ داروں کو لہو میں لت پت دیکھا۔ یوں بلوچوں کا یہ سردار فیصلہ کن کردار کی جانب بڑھتا گیا اور پھر اکبر خان کی زندگی میں وہ دن آگیا جب انہوں نے ریاستی ظلم و جبر کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس دن انہوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا آخری دم تک لڑنے کا اور موت کا اختیار اپنے پاس رکھ کر وقت کے چناو اور انتخاب کا فیصلہ کیا۔
بلوچ سماج جہاں اپنی یگانگت میں پہچان رکھتی ہے بلکل ایسے ہی اس سرزمین پر کردار ملتے ہیں، جو صدیوں بعد بھی ایک دوسرے کا کردار نبھاتے ہیں۔ مزاحمت، بہادری، جرائت کے واقعات سے بلوچ تاریخ کا ہر پنہ سنہری حروف میں لکھا گیا ہے۔ اکبر خان نے بھی اپنے زندگی کو ان اصولوں پر گذار کر دکھایا۔ وہ کھبی نہ جھکے، حق بات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، کتاب دوست اور پڑھنے کے شوقین تھے، علم و دانش کی قدر کرنے والوں میں سے تھے۔ ان سب خوبیوں کے باوجود ریاست نے اکبر خان کو استعمال کرنے کی کوشش کی، بلوچ رہنماؤں کی آپسی ناچاقیوں، چپکلشوں کو ریاست نے دوام دی، بھٹو دور حکومت میں گورنر راج قائم کرکے اکبر خان کو گورنر مقرر کرکے بلوچستان میں آپریشن شروع کی گئی لیکن چند دن کے اندر ہی انہوں نے وفاق سے بلوچستان میں آپریشن پر اختلافات کی بنیاد پر حصہ دار بننے سے انکار کرکے گورنر کے عہدے سے استعفی دے دیا۔
تاریخ کے ان جھروکوں اور ماضی کی تلخ یادوں سے نکل کر اگر ہم شہید اکبر خان کی بلوچ قومی تحریک میں باقاعدہ شمولیت اور پھر متحرک کردار نے انہیں صف اول کے رہنماوں میں شامل کیا جنکی قربانی کی بدولت بلوچ قومی تحریک نے ایک صدی کا سفر چند سالوں میں طے کر لیا۔
بلوچ قومی جہد برائے قومی آزادی کا یہ خاصہ رہا ہے کہ اس میں ہر عمر کے لوگوں نے باقاعدگی سے حصہ بن کر جوش و جذبہ اور شعوری کردار ادا کیا ہے، انگریز کے خلاف خان محراب خان کی جہدو جہد، آغا کریم خان کی پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف صف آرائی اور بابو نوروز کی بڑھاپے میں پہاڑوں کو مسکن بناکر دشمن کو للکارنے سے اکبر خان کی ستر سال کی عمر میں ظلم و جبر ماننے کے انکار تک نے بلوچ قومی تحریک کی بنیادوں کی مضبوطی کو دنیا کے سامنے آشکار کیا، انکی قربانی سے نہ صرف بلوچ قوم میں ریاست اور اسکے عسکری اداروں سے نفرت بڑھی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں نے قومی تحریک میں شامل ہوکر شہید کی راہ کو اپنا کر انکی جہد کو تقویت دی۔
بلوچ قومی تحریک کی پانچویں ابھار کیلئے شہید اکبر کے خون نے وہ کام کردیا جو شاید خوش نصیب اقوام کو ایسی قربانیاں نصیب ہوتی ہیں۔ تاہم ریاست کی نفرت و غیر مہذہب اقدام نے قابضین کے بلوچ قوم کے خلاف نفرت کو بھی ظاہر کیا۔ ایک بوڑھے بلوچ کیخلاف طاقت کے بے دریغ استعمال نے ریاستی سفاکیت کو فاش کر دیا۔
بلوچ سرزمین پر واقع ہر تلار و غار پرشہیدوں کے لہو کے نشانیاں موجود ہیں، جنہوں نے جرات و بہادری کی مثال قائم کی، اور دشمن کی بزدلی اور ناکامی و نامرادی کی پیغام چھوڑی ہے۔ ترترانی کا پہاڑی سلسلہ بھی تاریخ کی اس بے مثال مگر سفاکیت سے بھر پور دن کی گواہ بنی، جب قابض کی ٹینکوں ، توپوں کا رخ شہید اکبر خان کی کمین گاہ کی جانب موڑ دی گئی تھی، تین دن تک طول پکڑنے والے اس فوجی آپریشن میں دشمن افواج کی بلوچ جہد کاروں سے مدبھیڑ جاری رہی، سینکڑوں لوگ شہید کردیئے گئے، مگر دشمن فوج ناکام و نامراد رہی۔ بعض فوجی ذرائع کے مطابق شہید اکبر خان کو قتل کرنے کیلئے ریاست نے دور مار میزائلوں کا استعمال کیا، جن کی رینج ساتھ سو کلو میٹر تھی۔ جنہوں نے تراتانی کے اس غار کو کامیابی سے ہدف بنایا جس میں شہید اکبر خان سمیت انکے دیگر ساتھی مقیم تھے۔ دور مار ہتھیاروں کے استعمال نے ریاستی عزائم کو فاش کردیا کہ وہ پنجاب کی بالادستی و خوشحالی کو برقرار رکھنے کیلئے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کیلئے بھی تیار ہے۔ انیسو اٹتالیس میں کیے گئے قبضے کو برقرار رکھنے و وسائل کی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے اس عظیم بوڑھے بلوچ کو قتل کردیا گیا، جسکی ذمہ داری اس وقت کے ڈکٹیٹر فوجی آمر جنرل مشرف نے قبول کی۔
چھبیس اگست کے اس سیاہ دن نے جہاں بلوچ قوم کو ایک عظیم رہنماء سے محروم کیا وہیں پر شہیدوں کے لہو نے بلوچ قوم اور تحریک سے وابسطہ کرداروں کیلئے پنت و نصیحت کے انبار چھوڑے، دشمن کے خلاف مسلسل جہد کو وطیرہ بنا کر جہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔ مصلحت پسندی کا شکار ہوئے بغیر آزادی کو قومی منزل سمجھنے کی روش اپنا کر بے راہ روی سے بچنے کیلئے درست سمت میں قدم اٹھانا، دشمن کے وفاقی نظریئے کے مکر و فریب کی سیاست سے خود کو اور قوم کو دور رکھنے کیلئے جتن کرنے کا درس دیا اور آخری دم تک آزادی کے قومی موقف کی نگہبانی کرتے کرتے جان و مال کو قربان کرکے اسی راہ پر امر ہونے کی موت کو ترجیح دینا ہے۔ تب ہی غلامی سے آزاد سماج و آزاد بلوچستان کی تشکیل ممکن ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔