امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 2 – مشتاق علی شان

366

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 2
مصنف: مشتاق علی شان

سفید سامراج کے سیاہ جرائم | حصہ اول

افریقہ پر سفید سامراج کی مسلط کردہ سیاہ و مہیب رات پانچ صدیوں پر محیط تھی اور ان پانچ صدیوں کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے شرف اور وقار کو پیروں تلے روندنے سے عبارت ہے۔افریقہ کی یہ پانچ صدیاں مہذب اور متمدن کہلانے والی سفید فام اقوام یعنی سفید سامراج کے سیاہ اور گھناؤنے جرائم کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا ایک ایک ورق مظلوم انسانوں کے لہو اور اشکوں سے لکھا گیا ہے اوران جرائم کا دائرہ افریقہ سے لے کر جنوبی و شمالی امریکا،ایشیا اور آسٹریلیا تک پر محیط ہے۔انسانیت کی جو تذلیل انھوں نے کی ہے اس کا مداوا بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ استعماری عہد کے ان بڑے بڑے شیطانوں کے پنجران کی قبروں سے نکال کر افریقہ،ایشیا،لاطینی امریکا وغیرہ کے چوراہوں پر آویزاں کر دئیے جائیں۔

افریقہ کے باشندوں کو غلام بنانے کی ضرورت سفید سامراج کو اس لیے محسوس ہوئی کہ جب وہ جنوبی امریکا میں گئے تو وہاں سونے چاندی کے ذخائر لوٹنے کے دوران بڑی تعداد میں وہاں کے مقامی باشندوں (جنھیں ان سامراجیوں نے ریڈ انڈین کا نام دیا تھا)کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیا۔ اس کے بعد جب وہاں کی زرخیز زمینوں سے پیداوار کا آغاز کیا گیا تو اس کے لیے ان کے پاس افرادی قوت بہت کم تھی۔چنانچہ یورپ سمیت دنیا بھر کی منڈیوں میں روئی، تمباکو، شکر اور کافی وغیرہ کی بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں افریقی باشندوں کو غلام بنا بنا کر یہاں جانوروں کی طرح ہانک دینے کا آغاز ہوا۔

افریقہ میں پہلی بار قدم رکھنے والے پرتگیزی شہزادے ہنری نے اس وقت شوقیہ طور پر اس کی ابتدا کی تھی جب وہ 1441میں مغربی افریقہ کے ساحل سے 12 افریقی باشندوں (جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے)کو غلام بنا کر اپنے ساتھ پرتگال لے گیا تھا۔اس کے بعد محدود پیمانے پر افریقی باشندوں کو پرتگال اور اسپین بطور غلام لے جانے کا آغاز ہوا۔ جبکہ 1502میں پہلی بار کچھ افریقی غلاموں کو ہیٹی لیجایا گیا۔افریقہ میں پہلے پہل بڑے پیمانے پر غلاموں کی تجارت کی ابتدا 16ویں صدی کے اواخر میں پرتگال نے انگولا پر حملوں سے شروع کی اور اس کا دائرہ دیگر پرتگیزی مقبوضات تک پھیلتا چلا گیا۔بعدا زاں برطانوی، ہسپانوی،فرانسیسی،جرمن اور ولندیزی وغیرہ بھی اس گھناؤنے عمل میں شریک ہو گئے۔1593سے1700تک 30لاکھ افریقی باشندوں کو غلام بنا کر لاطینی امریکا بھیجا گیا اگلے سوسال تک مزید 3ملین افریقی غلام بنائے گئے۔1811سے 1870تک کے عرصے میں 109ملین افریقیوں کو جانوروں کی طرح فروخت کیا گیا۔یعنی مجموعی طور پر 120ملین افریقی باشندے غلام بنائے گئے۔

History Of The United Statsکے مصنفBain Craftنے افریقیوں کو غلام بنانے کی ہولناک تصویر کچھ اس طرح پیش کی ہے کہ”افریقہ میں غلاموں کو حاصل کرنے کا عام طریقہ یہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں گاؤں پر حملہ کر دیا جائے اور ضرورت ہو تو گاؤں میں آگ لگا دی جائے،جب گاؤں کے لوگ اس آگ سے بچنے کے لیے برہنہ بھاگ کھڑے ہوں تو ان کو پکڑ لیا جائے جبکہ مزاحمت کرنے والے کو گولی سے اڑا دیا جائے۔“

اٹھارویں صدی میں نائجیریا کے ایک سابق انگریز گورنر نے اپنی کتابHistory Of Nigeriaمیں افریقی غلاموں کے متعلق لکھا کہ ”ہر ایک سفر میں بیسیوں غلام مر جاتے تھے اور بہت سے موت سے بھی بدتر اذیتوں سے بچنے کے لیے موقع ملتے ہی سمندر میں کود جایا کرتے تھے۔کھانے پر مجبور کرنے کے لیے عورتوں اور مردوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے جبکہ شدید بیماری اور اذیت کی وجہ سے کھانا نہ کھا سکنے والے غلاموں کو کھانے پر مجبور کرنے کے لیے گرم سلاخ استعمال کی جاتی تھی۔جہاز کے عہدے داروں اور ملاحوں کو عورتوں کی حد تک غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔غلام مردوں کو ہتھکڑیوں اور پیروں میں زنجیروں کے ساتھ باندھا جاتا تھا۔غلاموں کو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح ٹھونسا جاتا تھا کہ وہ صرف ایک پہلو پر ہی لیٹ سکتے تھے۔1785میں ایک جہاز700 غلاموں کو لیکر چلا جو اس قدر بھرا ہوا تھا کہ جب یہ ویسٹ انڈیز پہنچا تو آدھے سے زیادہ غلام مر چکے تھے۔“

History Of Nigeriaکا یہی مصنف بعد کی صورتحال کو غلاموں کے ایک ڈچ تاجر ولیم یوسین کی زبانی یوں بیان کرتا ہے کہ”جہا ز سے اتارے جانے کے بعد ان غلاموں کو ایک کھلے میدان میں لایا جاتا تھا جہاں ان کو مکمل برہنہ کرکے معائنہ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد لوہے کی ایک آگ میں سرخ کی ہوئی سلاخ جس پر کمپنی کا نام یا نشان ہوتا تھا،سے ان غلاموں کے سینوں کو داغا جاتا تھا۔یہ ہم اس لیے کرتے تھے تاکہ اپنے غلاموں کو شناخت کر سکیں۔مجھے شبہ نہیں کہ آپ اس تجارت کو بہیمانہ سمجھیں گے لیکن یہ ضرورت کی وجہ سے ہے اس لیے اس کو جاری رہنا چاہیے،لیکن ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کو زیادہ گہرے داغ نہ ہوں خصوصاََ عورتوں کو جو مردوں کے مقابلے میں زیادہ نازک ہیں۔“

یہ ہے افریقہ کے غلام بنائے جانے والے باشندوں کی وہ تصویر جو کسی اور نے نہیں بلکہ خود سفید فام مصنفین نے کھینچی ہے۔انسانیت کی تاریخ کے بدترین اور گھناؤنے ترین جرائم میں سے ایک بڑے جرم یعنی غلامی کا ارتکاب ان نے لوگوں نے کیا جو اپنے تئیں دنیا کو وحشت اور جہل کے اندھیروں سے نکالنے چلے تھے۔ان کی شقی القلبی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل کی تاریخ میں غلام صرف جنگوں کے نتیجے ہی میں بنائے جاتے تھے مگر سفید سامراج نے اسے باقاعدہ انسانی شکار میں تبدیل کر دیا۔

اس انسانی شکار اور کاروبار میں مذہب کے ٹھیکہ دارپادریوں کا کردار بھی انتہائی مکروہ رہا ہے جو ایک طرف تو افریقی باشندوں کومسیحی بناتے رہے تو دوسری جانب وہ مذہب ہی سے ان کی غلامی کے لیے دلائل بھی تراشتے رہے۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے ان کی قلعی ان الفاظ میں کھولی کہ”جب یہ آئے تو ان کے پاس بائیبل اور ہمارے پاس زمین تھی اب ان کے پاس زمین اور ہمارے پاس بائیبل ہے“۔بہر حال یہ تو ایک مظلوم افریقی کے الفاظ تھے مگر 19ویں صدی میں ”بشپ ولیم میڈس“ نے آقاؤں اور غلاموں کے لیے جو کتاب لکھی اس میں ”مقدس بشپ“ آقاؤں سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ ”خداوند نے تمھیں اس کا حق عطا فرمایا ہے کہ تم ابد الآباد تک ان افریقیوں کو غلام بنا کر رکھو“۔ جبکہ اس کتاب میں بشپ صاحب افریقی غلاموں کو یہ تاکید کرتے ہیں کہ”خدائے بزرگ و

برتر اس جہان میں تم کو غلام بنا کر راضی ہوا۔ اس نے اس دنیا میں تمہاری تقدیر محنت اور افلاس پر بنائی ہے،جس کے سامنے تمھیں سر تسلیم ِخم کرنا چاہیے۔کیونکہ خداوندکی یہی مرضی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔تم جانتے ہو کہ تمھارے جسم اپنے نہیں بلکہ تمھارے حاکموں کی مرضی اور اختیار میں ہیں“۔اپنی غرض کا مارا اور حاکم طبقات کے مفادات کا دفاع مذہب سے کرنے والا یہ بشپ مزید زہر افشانی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ”تمھیں سزا ملی تو یا تم اس کے مستحق تھے یا نہ تھے لیکن چاہے تم فی الحقیقت اس کے سزاوار تھے یا نہ تھے،تمھارا یہ فرض ہے کہ خداوند ِقدوس کی تمھارے متعلق یہ مرضی ہے کہ تم اس کو صبر وشکر سے جھیلو۔اور فرض کرو کہ تم پر الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اس لیے ناجائز طور پر تم نشانہئ ظلم ہو تو بھی کیا یہ ممکن نہیں کہ تم نے کوئی اور برا کام کیا ہو جس کا تمھیں شعوری طور پر کبھی پتہ نہیں چلا، لیکن خداوندِ قدوس جو دیکھ رہا تھا کسی نہ کسی وقت اس کی تمھیں ضرور سزا دیتا۔کیونکہ تم بہرحال سزا سے بچ نہیں سکتے تھے۔“

اس زمانے کے بڑے بڑے مشہورپادری ولیم پن،ریورنڈ چارج، مصائٹ اور ایڈورڈوغیرہ نہ صرف خود سینکڑوں غلاموں کے مالک تھے بلکہ ان کی تجارت میں بھی حصہ دار تھے۔اسی لیے تو تنزانیہ کے ایک شاعراولوتھو جنیڈو اپنی نظم”خدا کو بتاؤ“ میں کہتا ہے کہ
خدا کو بتاؤ
کہ ہر روز دوپہر کے کھانے پر میں اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو
اپنے اپنے کُوڑے کے ڈبے سے گندگی کھاتے دیکھتا ہوں
کچلے ہوئے آلوؤں کے ٹکڑے اور سڑا گلا جیم
اسے بتاؤ
کہ میں اپنے دل میں ان کے لیے آنسو بہاتا اور روتا ہوں
کیوں کہ میں ان محتاجوں اور مفلسوں سے محبت کرتا ہوں
میں ان کی بوسیدگی اور غلاظت سے
ان کی شرمناک حالت سے
ان کی مفلسی اور شقاوت سمیت ان سے محبت کرتا ہوں
خدا کو بتاؤ
کہ میں نے اس کے ان بندوں کو گرجا گھر میں جاتے دیکھا ہے
اسے بتاؤ کہ میں نے اس کے پادری کو
انہیں نجات اور بخشش کی دعائیں دیتے دیکھا ہے
لیکن یہ پادری ان میں سے نہیں ہے
کیوں کہ وہ اس جہنم میں کبھی نہیں آئے گا
جہاں یہ مفلس اور کنگلے لوگ رہتے ہیں
وہ اس کے دوست نہیں ہو سکتے
”مفلس لوگ بخشی ہوئی روحیں ہیں“
وہ تمہاری کتاب سے بغیر کسی ایقان کے انہیں پڑھ کر سناتا ہے
لیکن یہ لوگ ہر اُمید سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں

اور اب جنت کے حسین خوابوں پر انہیں کوئی یقین نہیں رہا
خدا کو بتاؤ
کہ کانٹے دار درختوں کی سینتیں مارتی ہوئی شاخوں کے نیچے سے گزر کر
اس کا پادری
امراء کی آبادی کی طرف روانہ ہو چکا ہے
جہاں امن، آرام اور جنت
انسانی محبت کے دکھ اور گناہ سے ماورا ہیں
اسے بتاؤ
کہ میں نے اسے بہت تلاش کیا ہے لیکن وہ کہیں نہیں ملا
میں نے چلا چلا کر اسے آوازیں دی ہیں مگر اس نے جواب نہیں دیا
اسے بتاؤ
کہ میں نے عبادت گاہ میں خون رو رو کر اس سے التجائیں کی ہیں
لیکن اس نے ہماری طرف نگاہ نہیں کی
خدا کو بتاؤ۔۔۔۔۔۔ اسے بتاؤ
کہ وہ آسمان کے ابدی سکون سے نکلے اور اس جہنم میں آئے
ان کے لیے جو بیمار ہیں اور بے یارو مددگار ہیں
یہ اجڑے اور بھلائے ہوئے لوگ اسے پکار رہے ہیں
اسے بتاؤ کہ یہ غریب اورمحتاج لوگ
اس کے مبارک ظہور کے لیے تڑپ رہے ہیں
اسے بتاؤ کہ یتیم، معذور، عاشق اور خبطی
سب اس کی چاہ میں سلگ رہے ہیں
خدا کو بتاؤ۔۔۔۔۔خدا را اسے بتاؤ
کی اسے گرجا گھروں اور نئے طرزِ تعمیر کی شاندار عبادت گاہوں میں
رہتے ہوئے بہت وقت ہو گیا ہے
اسے بتاؤ
کہ پاک ومقدس قربان گاہوں میں وہ بہت رہ چکا ہے
اے خدا وہاں کوئی نہیں ہے
وہاں تیرے اس ”مقدس“ پادری کے سوا کوئی نہیں ہے!
خدا کو بتاؤ کہ وہ غریبوں کے گندے محلوں کی طرف آئے
اسے بتاؤ کہ اب دیر کی گنجائش نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔