امریکہ نے ایرانی وزیر خارجہ پہ پابندی عائد کر دی

218

امریکی وزارت خزانہ نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کے تحت امریکہ میں موجودگی کی صورت میں ان کے اثاثے منجمد ہو جائیں گے۔

وزارت خزانہ کے سیکریٹری سٹیون منوچن نے پابندی کی وجوہات بتاتے ہوئے جواد ظریف پر الزامات عائد کیے کے وہ ایران کے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے ایجنڈے کو پھیلاتے ہیں۔

دوسری جانب جواد ظریف نے ٹوئٹر میں اپنے رد عمل میں کہا کہ امریکہ نے ان پر پابندیاں اس لیے عائد کی ہیں کیونکہ وہ انھیں اپنے ایجنڈا کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ امریکہ نے مجھ پر اس لیے پابندی عائد کی ہے کیونکہ میں دنیا بھر میں ایران کی ترجمانی کرتا ہوں۔ کیا سچ اتنا تکلیف دہ ہے؟ اس پابندی کا مجھ پر یا میرے خاندان پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ایران سے باہر میرے کوئی اثاثے نہیں ہیں۔ مجھ کو اپنے ایجنڈے کے لیے اتنا بڑا خطرہ تصور کرنے پر آپ کا شکریہ۔

امریکی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایران کے وزیر خارجہ پر پابندیاں ان کی مذاکراتی صلاحیتوں کے خوف سے عائد کی ہیں۔

عباس موسوی نے ٹوئٹر پر لکھا امریکی جواد ظریف کی منطق اور مذاکرات کے فن سے شدید خوف زدہ ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے خود کو گذشتہ سال الگ کر لیا تھا۔

تاہم خلیجی خطے میں ہونے والے حالیہ واقعات پر یہ خدشہ اٹھ پڑا تھا کہ کہیں اس اہم ترین حصے میں کوئی جھڑپ نہ شروع ہو جائے۔

بدھ کو امریکہ نے چین، روس اور دیگر یورپی ممالک کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے بات چیت کرنے کی چھوٹ میں اضافہ کیا تاہم وائٹ ہاؤس کے سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن کے مطابق یہ چھوٹ صرف 90 دن کی ہے۔

امریکہ نے کیا کہا ہے؟

جواد ظریف پر پابندیاں لگائے جانے پر وزارت خزانہ کے سیکریٹری سٹیون منوچن نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے امریکہ دنیا بھر کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ایران کا رویہ ناقابل قبول ہے۔

ایران اپنے ملک کے شہریوں کو سوشل میڈیا تک رسائی دینے سے روکتا ہے اور جواد ظریف ایران کے پروپگینڈا کا دنیا بھر میں اسی سوشل میڈیا کی مدد سے پرچار کرتے ہیں۔

البتہ  پابندیوں کے باوجود جواد ظریف اقوام متحدہ کا دورہ کرنے نیویارک آ سکتے ہیں۔

جوہری معاہدے کا کیا ہوگا؟

سنہ 2015 کے تاریخ ساز جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد بقیہ ممالک جن میں چین، فرانس، روس، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں، نے امریکی فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ معاہدے کی پوری پاسداری کریں گے۔

گذشتہ ہفتے یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ان ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے تاکہ جوہری معاہدے کو بچایا جا سکے۔

میٹنگ کے بعد ایران کی جانب سے ایک سینئیر اہلکار نے کہا کہ ملاقات تعمیری ماحول میں ہوئی۔