نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے کہ نیشنل پارٹی تمام جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کررہی ہے، چیئر مین سینیٹ انتخابات میں جوکچھ ہوا سب عوام اور میڈیا کے سامنے ہے نیشنل پارٹی نے پہلے بھی بلوچستان کے مفادات پر سودا بازی نہیں کی اورآئندہ بھی نہیں کرینگے، وزیرا علیٰ بلوچستان میر جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آسکتی کیونکہ گنتی میں ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ امریکہ ایران کشیدگی بلوچستان کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تو اس کامرکز بلوچ علاقے ہونگے جس طرح کسی زمانے میں فاٹا اور شمالی وزیرستان تھے ان خیالات کااظہارانہوں نے ایک نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ بلوچستان میں اس وقت عد م اعتماد کی تحریک پختہ ہے کیونکہ گنتی میں جام کمال خان کی پوزیشن مضبوط ہے اس وقت حالات ان کے حق میں ہیں ہم نہیں سمجھتے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے امریکہ ایران کشیدگی اور ممکنہ جنگ پر کہا کہ بلوچستان پہلے سے ہی جنگ زدہ ماحول میں ہے جب سے افغانستان جنگ شروع ہوا ہے یہاں حالات خراب ہوتے ہیں اگر خدانخواستہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ جائے گی تو اس کا مرکز بلوچ علاقے ہونگے جو کسی زمانہ میں فاٹا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میرے وزارت اعلیٰ کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ زیادہ مشکلات اتحادیوں کی وجہ سے درپیش تھیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مخلوط حکمت کے متعلق مشکلات کے حوالے سے کہا کہ کچھ حکومتیں کس حد تک بہتر چلی ہیں مگر مجموعی طور پر مخلوط حکومتوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ نیشنل پارٹی کیلئے یہ بڑی بات ہے کہ چیئر مین سینیٹ کیلئے اپوزیشن کے تمام جماعتوں نے نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو کے نام پراتفاق کیا یہ وہ کردار ہے جو نیشنل پارٹی اور میر حاصل خان بزنجو نے 1990سے لیکر اب تک اسلام آباد میں سیاسی حوالے سے ادا کیا جہاں تک بلوچستان کی محرومیوں کا تعلق ہے تو نہ میر حاصل خان بزنجو محرومیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی صادق سنجرانی بلکہ بلوچستان کی محرومیاں ایک الگ موضوع اور مسئلہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بی ایچ پی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اسے میں صحیح سمجھتا ہوں جس طرح سے مجھے اس معاہدے کے حوالے سے بریف کیا گیا تھا کہ اس منصوبے سے 25فیصد بلوچستان جبکہ 75فیصد بی ایچ پی کاحصہ تھا مگر بی ایچ پی نے جب اپنے شیئرز انٹر نیشنل اسٹاک ایکسچینج میں فروخت کیئے تو ٹھیتان کا پر کمپنی نے شیئر خریدے پھر اس کے بعد سننے میں آیا کہ منصوبے میں گڑبڑ ہوگئی ہے مگر و ثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے پاس کے ثبوت موجود نہیں ہیں البتہ جو نیا معاہدہ ہوا تھا اس میں بلوچستان کوجو 25فیصد شیئر ملنے تھے اسے ختم کردیا گیا اور اس میں یہ شرط رکھی گئی کہ بلوچستان 25فیصد سرمایہ کاری کرے گا تب جاکر اسے 25فیصد شیئر دیئے جائینگے جس کے بعد معاہدہ آگے نہ بڑھ سکا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے کہا کہ نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کی مہربانی تھی جنہوں نے مجھے وزیر اعلیٰ بلوچستان نا مزد کیا کیونکہ میں امیدوار نہیں تھا بلکہ ہم نے لکھ کر دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان مسلم لیگ(ن) سے ہوگا وفاقی حکومت سے پہلے بلوچستان میں میرا حال اسی طرح تھا کہ جس کی تین بیویاں ہوں اس کا حال کیا ہوگا صبح ایک ناراض،دوپہر کو دوسری ناراض اور شام کوتیسری ناراض ہوجاتی ہے، میرے وزارت اعلیٰ کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ زیادہ مشکلات اتحادیوں کی وجہ سے درپیش تھیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مخلوط حکومت کے متعلق مشکلات کے حوالے سے کہا کہ کچھ حکومتیں کس حد تک بہتر چلی ہیں مگر مجموعی طور پر مخلوط حکومتوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔