ڈیرہ غازی کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کیجانب سے آپریشن کرتے ہوئے گھروں کی تلاشی لی گئی۔
آپریشن ڈیرہ غازی کے تحصیل تونسہ کے علاقوں سوکڑ، بستی مندرانی و دیگر علاقوں میں کی گئی۔
علاقہ مکینوں کے مطابق آپریشن کے دوران چادر و چاردیواری کی پامالی کی جارہی ہے جبکہ ڈاکووں اور اسلحے کی تلاشی کے نام پر لوگوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔
علاقہ مکینوں کا مزید کہنا بلوچ اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث انہیں اس طرح کے کاروائیوں میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔
واضح رہے ڈیرہ غازی خان میں بلوچستان کی طرح جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنان کے گرفتاریوں کے واقعات پیش آچکے ہیں۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں تونسہ شریف کے مختلف مقامات پر نوجوانوں کی جانب سے ‘ڈیرہ غازی خان بلوچستان” کے نعرے درج کرنے پر 15 کے قریب نوجوانوں کو پولیس نے 154 ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا گیا تھا۔
اسی طرح وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے گذشتہ مہینوں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جبری گمشدگیوں کو وسعت دیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے وزیر شیرین مزاری کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان میں بھی بلوچوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گورچانی قبیلے کو دھمکایا جارہا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے نقل مکانی کرے جبکہ روجھان مزاری سے سو سے زائد افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بلوچ راج ڈیرہ غازی خان کا کہنا تھا کہ راجن پور میں بے گناہ لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے. جہاں سرکاری اہلکار عام بلوچ نوجوانوں اور بزرگوں کو ماورائے عدالت غیرقانونی طریقے سے لاپتہ کرکے ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر رہے ہیں ۔