چین کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق حال ہی میں انہوں نے اپنے چینی ہم منصب شی جین پینگ سے ملاقات میں کہا کہ ہم یغور نسل کے مسلمانوں کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ یغور مسلمان خوش وخرم زندگی گذار رہے ہیں۔
ترک صدر نے گذشتہ روز بیجنگ میں چینی ہم منصب شی جین پینگ سے ملاقات کی۔ چار ماہ قبل ترک وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چین میں یغور نسل کے ترکی بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جو انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں یغور نسل کے مسلمان باشندوں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے مگر ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بیجنگ پر عالمی اداروں کی طرف سے سخت تنقید کی جاتی ہے۔
چین پر الزام ہے کہ اس نے یغور نسل کے مسلمانوں پر مذہبی پابندیوں کے ساتھ ساتھ انہیں فوجی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے جہاں انہیں بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں۔ چین ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا چلا آیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یغور نسل کے مسلمانوں کو پیشہ ورانہ تعلیمی مراکز میں رکھا گیا ہے جہاں ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ انہیں مذہبی انتہا پسندی سے بچانے کے لیے چینی زبان میں مختلف پیشوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
چین کی ژنہوا نیوز ایجنسی کے مطابق صدر طیب ایردوآن نے کہا کہ چین متحدہ کی پالیسی کی حمایت پر کار بند رہے گا۔ سنکیانگ کےعلاقے میں موجود یغور نسل کے مسلمان خوشی کےساتھ زندگی گذار رہے ہیں اور وہاں کی آبادی کو داخلی خود مختاری حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی ترقی اور خوش حالی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ انقرہ، بیجنگ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
صدر ایردوآن نے کہا کہ ان کا ملک دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی اعتماد سازی کے فروغ، انتہا پسندی سے نمٹنے اور سیکیورٹی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون جاری رکھے گا۔
ترک صدر نے خبردار کیا کہ سنکیانگ صوبے میں مسلمانوں کے مسائل کی آڑ میں ترکی اور چین کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی اور چین دو بڑے تجارتی شراکت دار ہیں اور تجارتی شراکت داری کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔