مولا بخش دشتی کا قتل اور، سیاست کے بدلتے تیور :زبیر بلوچ

559

مولا بخش دشتی کا قتل اور، سیاست کے بدلتے تیور

تحریر – زبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

امتیاز جان جب مجھے اس کمرے میں لے گئے جہاں ہم مدتوں پہلے مولا بخش دشتی سے ملا کرتے تھے، تو برسوں پرانی یادوں کے سرور کی کیفیت کا سماں طاری ہوگیا۔ کچھ لمحوں کے لیئے میں خود کو خوابوں کی وادیوں میں ڈھونڈتا رہا۔ پر وہ لمحے اب پلٹ کر نہیں آنے والے تھے۔ بیتے دنوں میں جب ہم بی ایس او والوں کو اپنی علمی تشنگی بجھانی ہوتی تھی تو ہم واجہ کے گھر کا رخ کیا کرتے تھے, جہاں بلوچ ,بلوچستان اور خطے کی سیاست کی گھتیوں کو سلجھانے گھنٹوں بیھٹے رہتے۔ واجہ مولا بخش بولتا رہتا اور ہم انگشت لبوں پر رکھ کر سنتے رہتے۔

مولا بخش بے انتہا مدبرانہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ سیاست کے داو پیچ اور مشکل سے مشکل ترین سیاسی اصطلاحات و سیاسی فلسفوں کو عام فہم بنا کر ایسے سادہ انداز میں بیان کرتے جسے نرسری کے سیاسی کارکن اور طالب علم بھی سمجھ جاتے۔

واجہ مولا بخش کا سیاسی سفر زمانہ طالبعلمی میں بی ایس او کے پلیٹ فارم سے شروع ہوا، آپ تنظیم کے مختلف ذیلی عہدوں سے ہوتے ہوئے 1978 میں بی ایس او کے چئیرمین کے عہدے پر فائز رہے اور کامریڈ فدا بلوچ آپ کے سیکریٹری جنرل تھے۔

کامریڈ فدا احمد بلوچ اور واجہ مولا بخش دشتی نے ملکر تنظیم کو علمی بنیادوں پر منظم کرنا شروع کیا۔ تنظم کے پرچے کا اجرا کیا اور کیڈر سازی کے لیئے فکری نشستوں کا انعقاد کیا۔ انہی فکری نشستوں کی بدولت بلوچستان کے ہر ہلک و گدان میں سیاسی بحث ومباحثہ روز مرہ گفتگو کے حصے بن گئے۔ فکری نشستوں اور گفتگو کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں نظریاتی پختگی شائستگی اور سیاسی سمجھ بوجھ اور شعور پروان کا کلچر پروان چڑھا۔ بلوچستان کی سیاست میں فکری نشستوں اور نظریاتی پختگی کی وجہ سے ذاتی نمود و نمائش, وی آئی پی کلچر, کلاشنکوف گارڈ اور میر معتبروں کے جتھوں کے لیے کوئی خلا نہیں بن پا رہی تھی بلکہ سیاسی کارکن ایسے ماحول کو سیاست کے اندر پنپنے نہیں دیتے تھے۔

1980 کی سیاست میں بھی نفرت، اختلاف اور ناپسندیدگی کی سیاست تھی لیکن اس دور میں سیاسی کارکناں میں اختلافات بھی اصولی ہوا کرتے تھے ۔عدم برداشت اور سیاسی تعصبات بھی ایک فکر اور نظریئے کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ یہی فکری بالیدگی, سیاسی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت آگے چل کر بی ایس او کے دونوں دھڑوں کے انضمام اور 1987 میں بلوچستان نیشنل یوتھ مومنٹ کی بنیاد بنی۔

بی این وائی ایم اور پھر بی این ایم ,انجمن اتحاد بلوچاں اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے برعکس پہلی بلوچ تنظیم تھی جو اپنی مکمل تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ریڈیکل بنیادوں پر بنی تھی۔ انجمن اتحاد بلوچاں اور قلات اسٹیٹ نشنل پارٹی میں باقاعدگی سے تنظیمی ساخت اور ڈھانچہ فعال صورت میں وجود نہیں رکھتے تھے۔ نومولود ریڈیکل ترقی پسند تنظیم جس کو بی ایس او سے فارغ شدہ کیڈرز نے جدید قومی جماعت کی تشکیل کی عمارت میں پہلی اینٹ رکھنے کے ارادے سے رکھی تھی. اس ترقی پسند انقلابی منشور رکھنے والی تنظیم نے سماج میں (بلوچ سماج صدیوں سے دقیانوسی, قبائیلت اور جاگیرداریت کے غیر انسانی سماج میں ڈھلی ہوئی ہے ) نیم قبائیلیت جاگیرداریت, معاشی و سماجی نابرابری اور سیاست میں شخصی اجارہ داری کو بلوچ قومی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گردان کر ان کےخلاف عملا اور فکرا جد و جہد کرنے کا پیمان کیا۔

1988میں کامریڈ فدا احمد بلوچ کو قتل کیا جاتا ہے تو بلوچستان نیشنل یوتھ مومنٹ کو تحلیل کیئےبغیر بلوچستان نیشنل مومنٹ کاقیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ بی این ایم 1988 میں اس وقت کے صدر ضیاالحق کی ہلاکت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کرکے بی این اے حکومت کی اتحادی بن جاتی ہے۔ یہاں سے بلوچستان کی سیاست میں مڈل کلاس دور شروع ہوجاتا ہے۔

مولابخش دشتی اور فدا بلوچ بلوچستان کے ترقی پسند اور قومی طبقاتی سیاست کے سنجیدہ اور زیرک قائد تھے جو سیاست اور جدوجہد کو شخصی اجارہ داری اور قبائیلی اثررسوخ, سرداروں نوابوں سے نکال کر اداروں کے تابع کرنا چاہتے تھے. بی این وائی ایم اور پھر بی این ایم کی تشکیل ان باتوں کی واضح دلیل تھی۔

مولا بخش دشتی کے اچانک قتل سے نیشنل پارٹی کے اندر سے سیاسی روادری, صبر اور بھائی چارگی ,کارکن کلچر تنقید و خود تنقیدی کے ساتھ دہقان, بزگر, طالب علم اور عام سیاسی کارکن قتل ہوتے گئے جو فدا احمد کے قتل کے بعد کافی نحیف و کمزور تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سیاست کے اندر ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوتا گیا اس خلا میں قومی و طبقاتی جدوجہد قومی حق خود ارادیت ساحل و وسائل کی جنگ عام آدمی کی پارٹی انسان اور چاگرد دوستی محبت اور باہمی احترام کے جذبے سبھی ایک بے رنگ اور بے بو گیس کی طرح ہوا میں تحلیل ہوگئے ۔ مارکس کہتا ہے خلا خالی نہیں رہتا ٹھیک ایسا ہی خلا پر ہوتا گیا ایسا بھر گیا کہ تل دھرنا اپنی جگہ, رائی کے دانہ دھرنے کو جگہ نہیں بچی۔ بڑی گاڑیوں میں بیھٹے بڑے لوگ روپے والے لوگ, بندوق والے صاحبان, وی آئی پی کلچر والے سفید پوش و سفید ریش ٹکری اور بگھی کھینچنے والے نواب و سرداروں کی تو بات ہی اور ۔۔۔

سیاست جس کا مرکز عوام تھا عوامی مفادات کی نگہبانی تھی غریب اور درتہ پچ مہلوک کی قوت بازو پر بھروسہ تھا نے کروٹ لے کر کراٹے کھانی شروع کر دیے جیسے برسوں کا جاگا سو رہا ہو۔

عام آدمی غریب عوام اور کمٹیڈ سیاسی کارکن نے تو مایوس ہونا ہی ہے پھر بات وہ سیاسی مایوسی کی تو کس کو بغض معاویہ نہیں آتا۔ بددل مایوس غم وغصے سے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سیاسی کارکناں نان شبینہ کے محتاج مظلوم اور پسے ہوئے درتہ پچوں کے سلگتے ارمانوں اور ادھورے خوابوں اور خواب وہ جو ایک خوبصورت صبح کی نوید خواب تھے, وہ خواب ایک بہتر مستقبل کے خواب تھے, وہ خواب بھوک و افلاس سے پاک کل کے خواب تھے, جو اب اس بے رنگ اور بے بو گیس کے ساتھ خلا میں تحلیل ہوگئے۔ کوڑیوں کے دام لگا دیئے گئے یہی کوڑی اور دو وقت کی روٹی درتہ پچ سیاسی کارکنان کے لیئے جنم جنم کی زندگی تھی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی سیاست ایک نظریاتی سیاست ہوتی تھی جس کی جڑیں فکر اور شعور کے اندر پیوست تھیں, یہاں ارمانوں کے سوداگروں نے اپنی منڈی کب بسا لی۔ خریدنے والوں کو بے سروسامانی کی حالت میں جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے مسکن کا سراغ کس نے دیا۔ یہ پاپ کیونکر سرزد ہوا۔۔۔

گناہ در گناہ کا سلسلہ ان سیاسی پارٹیوں سے سرزد ہوتا گیا، جو سیاست میں نظریہ, فکر ,فلسفہ ,کمٹمنٹ ,نیک نیتی خلوص وفاداری اور سادگی کی اہمیت پر زور دیتے رہے، ان کو سیاست کی زینت اور خوبصورتی سمجھتے تھے۔ یہ خوبصورتی اور زینت اب نہیں رہی۔ عوامی اجتماعی سوچ سمٹ گئی, غریب لاچار درتہ پچ مظلوم عوام اور کمیٹڈ سیاسی کارکنوں کے جذبات, ارمانوں, امنگوں, مجبوریوں, خواہشات اور تمناوں کا کھلواڑ ہوتا رہا۔

فدا احمد بلوچ کے قتل کو تقریباً اس کے ساتھی بھول چکے ہیں، اس کا ریفرنس اور یوم شہادت اب کے جنریشن بھول چکی ہے. دیکھتے ہیں واجہ مولا بخش کے دوست اور اس کے کاروان کے ہمسفر اس کے خون کے دیپ کب تلک جلاتے رہیں گے۔ سیاست کی اس بدلتی روش نے سیاسی اقدار, سماجی طرز زندگی, قومی احساس فکر اور سب کو روند کر اس پر اپنی من کا مندر تعمیر کیا ہے لیکن اس مندر میں بھگوان وہ نہیں جس کی پراتنا ہوتی ہے بلکہ وہ راکھشس پیر پسارے انتہائی ڈراؤنی شکل بنائے بیٹھا ہے جو ہمیشہ آگ و خون سے اپنے من کو شانتی پہنچاتا ہے.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔