فرانز فینن اور نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سارتر، فینن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” اینگلز کے بعد فینن وہ پہلا شخص ہے جس نے تاریخ کی حرکت کو دن کی روشنی بخشی ہے۔”
تاریخ کے مادی تصور سے لے کر سامراجیت کو سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی اسٹیج تک اور پھر تیسری دنیا میں بلخصوص نوآبادیاتی نظام کی وحشتناکیوں کو سمجھنے میں فینن کا نہایت ہی اہم کردار ہے۔ فینن علم نفسیات کا ماہر ہونے کے ساتھ ایک سیاسی فلسفی کا مقام بھی رکھتا ہے۔ کچھ ماہرین فینن کی تحریروں کو مابعد از نوآبادیات اور مارکسزم کا آمیزش قرار دیتے ہیں کیونکہ فینن تاریخ کے مادی تصور کو لے کر استعمار کی شکست کے تاریخی عمل کو بیان کرتا ہے۔ فینن یہ واضح کرتا ہے کہ “آج جو مسئلہ دنیا کی افق پر واضح ہے وہ ہے دولت کی تقسیم نو کا مسئلہ انسانیت کو اس کا جواب دینا ہوگا نہیں تو یہ اسے پاش پاش کردیگا۔” دولت کی تقسیم نو ہی نوآبادیاتی نظام کی بنیادی وجہ ہے اور نوآبادکار کا جبر اس مسئلے کو برقرار رکھنے کا سامان ہے جبکہ دیسی کا تاریخی کردار ہی انسانیت کا جواب ہوگا۔
فینن قومی آزادی، قومی نشات ثانیہ یا پھر دیسی کو ایک قومی قوت میں پرونے کے عمل کو نوابادکار کے شکست سے تشبہیہ دیتا ہے اور اس کے بقول “نوآبادکار کی شکست ایک پرتشدد عمل ہوتا ہے۔”
فینن واضح کرتا ہے کہ تشدد کی ابتدا قطعا دیسی باشندہ نہیں کرتا وہ تو اس کا رخ موڑتا ہے۔ انسانوں کے ایک کی جگہ دوسری نوع کی آمد ہی دراصل نوآبادکار کی شکست ہے۔
فینن نوآبادکار کی شکست بابت تفصیلی لکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ استعمار کی شکست کا مقصد دنیا کو بدلنا ہے لیکن فی الوقت بذات خود دیسی کی تحریک مکمل بدنظمی کا شکار ہوتا ہے اور اس سطح پر کامیابی ممکن نہیں ہوتی کیونکہ یہ کوئی جادوگری یا فطری حادثہ یا پھر پرامن مذاکرات کے صورت میں کسی صورت ممکن نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہے۔
یہ شکست کوئی خاموش عمل نہیں اس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ کارفرما ہوتی ہے جو نوابادکار اور دیسی کی شدید کشمکش کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ کشمکش مقامی یا دیسی باشندے کو متاثر کرتی یے اور ان میں بنیادی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔
مقامی باشندوں کی تحریک بے معنی تماش بینوں کو بامعنی کرداروں میں بدل کے رکھ دیتی ہے اور وہ اپنا تاریخی کردار ادا کرتے ہیں۔
فینن اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ “آپ کسی بھی معاشرے کو خواہ وہ کتنا ہی غیر ترقی یافتہ کیوں نہ ہو ، کسی لائحہ عمل کے ذریعے بالکل نہیں پلٹ سکتے جب تک آپ ابتدا ہی سے یعنی لائحہ عمل مرتب کرتے وقت یہ تعین نہیں کرتے کہ آپ اس تاریخی عمل کے دوران پیدا ہونے والے ہر طرح کے رکاوٹ پر حاوی ہونگے۔”
جہد مسلسل ہی کامیابی کی کلید ہے اور کسی بھی مرحلے میں رکاوٹوں کو خود پر حاوی کرنے کی بجائے ان پر حاوی ہونے کے فن سے آشنا ہونا ہی مقامی باشندے کی اصل کامیابی ہے۔
فینن سرسری رائے قائم نہیں کرتا اور نوابادیاتی نظام کی حقیقتوں کو نہایت باریک بینی سے بیان کرتا ہے، وہ نوآبادیاتی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، نوآبادکار کی دنیا اور دیسی باشندے کی دنیا۔ ان دونوں دنیاوں کی حقیقتیں مختلف ہوتی ہیں اور دونوں کی حقیقتوں میں دو انتہائیں ملتی ہیں۔ مقامی باشندہ جہاں کسمپرسی کی زندگی گذارتا ہے وہی نوابادکار کی زندگی آسائش و آسودگیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔
اس حوالے سے اگر خضدار یا ڈیرہ بگٹی کے کینٹ میں بسنے والے نوآبادکار کا موازنہ وہاں کے دیسی باشندوں کی زندگی سے کریں تو واضح پتہ چلتا ہے کہ یہ دو مختلف دنیائیں ہیں اور جس قدر آسائش نوآبادکار کو حاصل ہے وہی تھوڑے ہی فاصلے پر دیسی آبادی کے بچے malnutritionکا شکار ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کا انتہائی فقدان ہے۔ اس فرق کی بنیادی وجہ نوابادیاتی نظام ہے جو جبر پر قائم ہے۔ فینن بار بار یہ واضح کرتا ہے کہ تشدد ہی نوآبادیاتی دنیا کو برقرار رکھتی ہے اور اس نوآبادیاتی دنیا کو تباہ کرنے کے لیے دیسی کا تاریخ مجسم بن کر ممنوعہ علاقوں پر حملہ لازم ہے۔ فینن واضح کرتا ہے کہ “نوابادیاتی دنیا کی بربادی کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ایک علاقے کو ختم کردیا جائے، اسے زمین کی گہرائیوں میں دفن کردیا جائے یا پھر اسے ملک بدر کردیا جائے۔”
فینن ان رویوں کی وضاحت کرتا ہے جو دیسی کو منظم ہونے سے روکے رکھتے ہیں، دیسی ایک دوسرے کے خلاف چھوٹی باتوں پر ہتھیار اٹھاتے ہیں لیکن جبر کے خلاف ان کا خوف ان کی کمزور حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ دیسی کی تحریک ان ہتھیاروں کا رخ آپس کی بجائے نوآبادکار کی جانب موڑتا ہے اور دیسی میں ایک قومی احساس پیدا کرتا ہے۔
فینن فیصلہ کن مرحلے میں لیڈرشپ کی کمزوری پر بھی تنقید کرتا ہے، فیصلہ کن مرحلہ میں اکثر لیڈرشپ کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے اور وہ رکاوٹوں پر عبور حاصل کرنے کی بجائے ایک مرحلہ پر آکر خود رکاوٹ بن جاتا ہے۔
فینن یہ بھی واضح کرتا کہ جدوجہد پرانی رنجشوں کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے وہ لکھتا ہے “ایک حقیقی اجتماعی کیف میں آکر، وہ خاندان جن کی روایتی دشمنیاں چلی آرہی تھیں۔ پرانی عداوتیں ختم کرنے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں بہت سی صفائیاں اور میل میلاپ ہوتے ہیں۔ وہ ناقابل فراموش کدورتیں جو ایک مدت سے دفن تھیں، پھر سے سامنے لائی جاتی ہیں تاکہ انہیں پوری طرح جڑ سے نکال پھینکا جائے۔ قومیت کی تشکیل میں شعور کا اضافہ بھی مضمر ہوتا ہے۔ قومی اتحاد سب سے پہلے گروہوں کا اتحاد اور پرانے جھگڑوں اور ان کہی رنجشوں کا حتمی خاتمہ ہوتا ہے۔”
فینن تحریک کے حوالے سے یہ بھی کہتا ہے کہ گذرتے وقت کیساتھ ایک باقاعدہ منظم فوج اور ایک مرکزی انتظامیہ کی اہمیت زیادہ واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے۔
وہ واضح کرتا ہے کہ انقلابی جنگ اور روایتی احتجاج میں فرق ہوتا ہے۔ احتجاج زیادہ سے زیادہ تین سے چار ماہ تک جاری رہ سکتا ہے لیکن انقلابی جنگ کی جیت کا دارومدار اس کی طوالت طے کرتی ہے اور اس کے لیے مقامی باشندے کا شعور سے لیس ہونا لازم ہے۔ شعور کی جگہ شاندار نعرے کسی صورت نہیں لے سکتے۔
فینن کہتا ہے کہ جنگ جیسے جیسے
آگے بڑھتی ہے دشمن بھی چالیں بدلتا جاتا ہے۔ “مناسب وقت پر وہ اپنی جابرانہ پالیسیوں کے ساتھ ساتھ دوستی کا شاندار مظاہرہ بھی کرتا جاتا ہے۔ تقسیم کرنے والی چالیں اور نفسیاتی حربوں کا استعمال کرتا ہے۔ بسا اوقات وہ قبائلی جنگوں کو پھر سے زندہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔”
اس حوالے سے دیکھا جائے بلوچ تحریک میں فینن کے ان باتوں کا کافی گہرا نقش پایا جاتا ہے۔
فینن دیسی باشندے کے خلاف مذہب کے استعمال پر بھی بتاتا ہے کہ نوآبادکار خدا کے راستے پر نہیں بلکہ خدا کے ذریعے اپنے راستے پر دیسی باشندے کو چلاتا ہے۔ مذہبی رہنما اور روایتی سردار ایک سکے کے دورخ ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کو معاشرے میں روایتی طور پر محترم سمجھا جاتا ہے اس لیے دونوں نوآبادکار کی نمائندگی میں دیسی کو نوآبادکار کی قائم کردہ راہ پر لے جانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان نمائندوں کے کردار کو روکنے میں تحریک کا اس مقام پر آنا ضروری ہے جہاں عوام شعوری طور پر انہیں رد کردے۔
فینن نوآبادیاتی نظام کی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر جدوجہد کی دعوت دیتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں فورا اپنے طور طریقے بدلنے ہونگے۔ “ہمیں اس گہری تاریکی کو کاٹ کر پیچھے چھوڑنا ہوگا جس میں اب تک ہم دھنسے ہوئے تھے۔ نئے دن کو جو ہمارے سامنے ہے ہمیں ثابت قدم، عقلمند اور پرعزم پانا چاہیے۔”
یورپ کے حوالے سے فینن کہتا ہے کہ یورپ کو چھوڑ دو جہاں لوگ انسان کی موضوع پر بات کرتے نہیں تھکتے لیکن جہاں انہیں کوئی انسان نظر آتا ہے اسے قتل کردیتے ہیں۔”
فینن یورپ کی پیروی سے اکتاہٹ ظاہر کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ دیسی کے پاس یورپ کی پیروی سے اور زیادہ بہتر کام ہیں۔ وہ دیسی کو یورپ کی نقالی کو ترک کرنے کا کہتا ہے۔ اگر کوئی رول ماڈل چاہے تو وہ اپنے بازو اور اپنے ذہن کی کوئی تخلیق ہونی چاہیے۔ یورپ کی نقالی سے بہتر ہے کہ ایک نئے انسان کی تخلیق کی جائے۔
فینن لکھتا ہے ” یورپ کے لیے ، اپنے لیے اور انسانیت کے لیے ، ساتھیو ہمیں تاریخ کا ایک نیا ورق الٹنا چاہیے، ہمیں نئے تصورات پیش کرنے چاہیے اور نئے انسان کو اس کے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔