عالمی سامراج اور مظلوم اقوام تحریر۔ عاصم اخوند ترجمہ۔ مشتاق علی شان

422

عالمی سامراج اور مظلوم اقوام

تحریر۔ عاصم اخوند

ترجمہ۔ مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا بھر کی طرح سندھ میں بھی یہ رائے عام ہوتی جا رہی ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر جب سوویت یونین نہیں رہا تو امریکا ہی وہ عالمی ریاست ہے جو مثبت یا منفی رخ میں ترقی پسند کردار ادا کرے گی اور مظلوم قوموں اور پسماندہ سماجوں کی آزادی و نشوونما میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس رائے یا خیال کے حوالے سے جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام سائنسی اور تیکنیکی انقلاب کے نتیجے میں صنعتی پیداوار کے طریقہ کار سے آگے نکل چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکااپنے استحصالی کردار کے باوجود پسماندہ اور کم ترقی یافتہ سماجوں کو تیکنیکی ترقی کے سلسلے میں مدد فراہم کرے گا۔ ان کے مطابق جس طرح برطانوی شہنشاہیت نے ہندوستان کی لوٹ کھسوٹ کے سلسلے میں یہاں جدید صنعتی نظام قائم کیا اسی طرح امریکی سامراج کا ہمارے سماجوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہونے کے باعث وہ ترقی کے خیال سے ہمارے لیے مثبت حقیقت ہے۔ اس سلسلے میں دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ امریکا کثیر القومی ریاستوں کو ختم کرکے آج تک محکوم بنائی گئی اقوام کو نجات دلائے گا اور انھیں اپنی قومی ریاستوں کی تشکیل کے مواقع فراہم کرے گا۔ ہم اس مضمون میں ان مذکورہ بالا نظریات کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے اور خاص طور پر اس نقطہ نظر کے حوالے سے کہ یہ دونوں رویے سندھ کی قومی تحریک کے فکری دیوالیہ پن کا نتیجہ ہیں۔

مذکورہ بالا یہ خیال کہ امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی تیکنیکی ترقی ہمارے لیے ترقی پسند ثابت ہو سکتی ہے، دراصل انسانی سماج اور اس کے نشوونما کی تصویر کا محض ایک رخ پیش کرتی ہے۔ دراصل کرہ ارض پر کوئی ایک ملک یا ایک سماج وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ کرہ ارض الگ الگ سماجوں کی اکائی ہے اور یہ اکائی کُل انسانی تہذیب کی تعمیر کرتی ہے۔ سائنس، فلسفہ، مذہب، ثقافت اور محنت کا عمل، ایک سماج انھیں دیگر سماجوں سے اپناکر قبول کرتا رہتا ہے اور یوں سارے سماجی دائرے عالمی انسانی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان نے ریاضی کی سائنس میں صفر(0)ایجاد کیا۔ یہ ایجاد اس وقت کسی بھی ملک یا سماج سے آزاد ہو کر عالمی انسانی علم کا حصہ بن چکی ہے۔ اس طرح آج اس ایجاد پر کسی ایک ملک یا سماج کا دعویٰ نہیں رہا۔ یہ مثال پیش کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ انسانی جہان کا کوئی بھی دائرہ کسی ایک نسل یا آبادی کا ورثہ نہیں ہے بلکہ یہ جہان سارے انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ البتہ آج تک انسانی سماجوں میں ظالم و مظلوم کے رشتے کی موجودگی کے باعث الگ الگ سماج ایک ہو کر انسانی تہذیب کے فلاح و بہبود اور ترقی کے لیئے کردار اد کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ الگ الگ طور پر ایک دوسرے کی ترقی میں معاون ومددگار ثابت ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے لیئے رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔ اس طرح کے ظلم و بربریت پر مبنی سماجی رشتوں کی جڑ طبقاتی رشتوں میں موجود ہوتی ہے اور جب تک اس طبقاتی سماج کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک سب کا ملکر ترقی کرنا ایک خواب ہی ہے۔ چونکہ کوئی بھی فرد، گروہ، سماج یا ملک یکساں رفتار اور ہر پہلو سے ترقی نہیں کرتا اس لیے کسی ایک ملک کی ترقی کو قطعی اور آخری سمجھنا انتہائی سادگی پر مشتمل نقطہ نظر ہے۔ اس بات سے ہماری مراد یہ ہے کہ جو لوگ امریکا کی سائنسی اور تیکینکی ترقی سے مرعوب ہوتے ہیں، وہ حقیقت کے دیگر رخوں اور پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اگر امریکی سماج کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تیکنیکی اور سائنسی ترقی کے باوجود اُس سماج میں موجود سماجی رشتے جوں کے توں قائم ہیں اور اس کے جوہر میں کوئی بنیادی نوعیت کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ایک طرف اس کا اظہار ریڈ انڈین اور سیاہ فام افراد کے ساتھ سفید فام حاکموں کے سلوک سے عیاں ہوتا ہے تو دوسری جانب شکاگو میں مزدوروں کے قتل ِعام اور اس وقت لاکھوں کی تعداد میں موجود بے روزگاروں سے ہوتا ہے۔ امریکی قانون کے مطابق اگر آج بھی کوئی یہ ثابت کر دے کہ وہ ان اولین یورپی باشندوں کی اولادوں میں سے ہے جنھوں نے امریکی خطے پر قبضہ کرکے ہزاروں ریڈ انڈینز کا قتلِ عام کیا تھا، تو انھیں لازم طور پر اسکالر شپ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ امریکا میں موجود سیاہ فام باشندوں کے ساتھ جو رویہ موجود تھا اور آج بھی ان سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقائی نشوونما کے عمل کو سمجھنے سے یہ واضح ہوجائے گا کہ ایک ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کے سارے پہلو نہ عیاں ہوئے تھے اور نہ ہوسکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا میں صنعتی ترقی یعنی پیداواری قوتوں میں ایک نئی نوعیت کی کایا پلٹ برطانیہ میں ہوئی جس نے برطانیہ کے معاشی رشتوں کو سرمایہ دارانہ رشتوں میں تبدیل کر دیا۔ لیکن انگریز بورژوا سیاسی نظام نے جاگیردارانہ نظام کے ساتھ صلح و مفاہمت کی جس کے باعث انگریز سرمایہ داریت بادشاہی نظام کو ختم نہیں کر سکی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سیاسی رشتوں کی تبدیلی کا عمل فرانس میں مکمل ہوا اور جدید سرمایہ دارانہ جمہوریت نمودار ہوئی۔ اس سارے سرمایہ دارانہ ارتقاء میں علمی وفلسفیانہ تبدیلی کی ابتداء جرمنی میں مارٹن لوتھر کی اصلاحی مذہبی تحریک سے ہوئی اور اسی سلسلے نے کانٹ سے ہیگل تک کے فکری سلسلے کو جنم دیا۔ یعنی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی، سیاسی اور فکری ارتقا کا سلسلہ کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ الگ الگ جغرافیائی خطوں میں تکمیل کا سفر طے کرتا رہا ہے۔ اس لیئے ہمارے خیال میں امریکی سماج تیکنیکی ترقی کے علاوہ دیگر سماجی دائروں میں غیر تبدیل شدہ حقیقت ہے۔

امریکی سامراج کی یہ غیر متبدل حالت تیسری دنیا کی اقتصادی اور سیاسی زندگی پر قبضے کا نتیجہ ہے۔ خود یورپ کی سماجی زندگی کی خوشحالی اور استحکام پسماندہ ممالک کی لوٹ کھسوٹ ہی کے نتیجے میں ہے۔ جس طرح پاکستانی ریاست سندھ کی لوٹ کھسوٹ کے سلسلے میں شہروں میں MQMاور دیہاتوں میں جاگیردارانہ اور سرداری نظام کے راج کو قائم کیے ہوئے ہے اسی طرح امریکی سامراج بھی تیسری دنیا کے سارے سماجوں کی ترقی کو روک کر اپنے استحصال کو جاری رکھتا چلا آ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں امریکا کی ساری حکمتِ عملی یہ ہے کہ پسماندہ ممالک کو ہمیشہ اسی حالت اور سرمایہ داری سے قبل کے رشتوں میں ہی رکھا جائے تاکہ ان کے اقتصادی ذرائع کا بھرپور استحصال کیا جا سکے۔ امریکی سامراج نے تیسری دنیا کے کسی بھی ملک میں بنیادی ٹیکنالوجی منتقل نہیں کی ہے۔ موبائل فون اور سافٹ وئیر کمپیوٹروں کے آ جانے سے تیسری دنیا کے ممالک کی پیداواری قوتوں میں کسی قسم کی کیفیتی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ تاریخ کے ارتقائی سلسلے کی صورت ہمیشہ پیچدار اور انقلابات و ردِ انقلابات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ارتقا پُرامن بھی ہوتا ہے اور پُرتشدد بھی۔ تاریخ کے کچھ ادوار ترقی پسند ہوتے ہیں اور کچھ رجعت پسند۔ آج تاریخ کے اس موڑ کو مجموعی طور پر قومی اور طبقاتی تحریکوں کی پسپائی کا دور کہا جاسکتا ہے۔ بیسویں صدی میں طبقاتی تحریک کی آخری کامیابی ویت نام اور قومی تحریک کی آخری کامیابی بنگلہ دیش تھی۔ اس کے بعد قومی اور طبقاتی تحریکیں ردِ انقلاب کے دور میں داخل ہو گئیں جوکہ سامراجی ممالک کے لیے غنیمت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج قومی اور طبقاتی تحریکیں فکری دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ قومی وطبقاتی تحریکوں کی سیاسی قیادت اس حقیقت کو نہیں سمجھتی کہ آج ایک ایسا دور ہے جس میں فکری جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ محض سیاسی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس فکری دیوالیہ پن کا اظہار قومی تحریکوں کی اس رائے سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ امریکا دنیا کی مظلوم اقوام کو آزاد ریاستی ڈھانچوں میں تبدیل کرے گا۔ دراصل یہ خیال اس وقت اس لیے جنم لے رہا ہے کہ قومی تحریکیں ہاریوں اور محنت کش عوام کو فکری طور پر وہ قوت تسلیم نہیں کرتی جو مظلوم قوموں کی آزادی کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کر سکتی ہے۔

ان مذکورہ بالا خیالات کا جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کے عالمی نظام کے سرخیل یعنی امریکا سے کسی بھی قسم کی غلط توقع رکھنا یا اس سے امیدیں وابستہ کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو گا کیونکہ یہ رویہ نئے سامراجی عالمی نظام سے صلح و مفاہمت اور جڑنے کی ترغیب دے گا۔یہ سوچ بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس توسیع پسند سامراجیت کی مددگار ثابت ہو گی۔

سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ رائے عام ہوئی کہ اب امریکی سامراج کی حکمتِ عملی تبدیل ہوگی اور امریکا بہادر ہر فوجی آمریت کو نیست ونابود کر دے گا۔ اس رائے یا خیال کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس میں امریکا کے عوام دشمن اور مظلوم اقوام کے خلاف حکمتِ عملی کو صرف سوویت یونین اور سرد جنگ سے مشروط کیا گیا ہے۔ جبکہ اس حقیقت کو اہمیت نہیں دی گئی کہ امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی سامراجی شکل اس کے اندر ہی موجود ہے نہ کہ محض سرد جنگ کی وجہ سے۔

امریکی سامراج نے قوموں، نسلوں اور برادریوں کی آزادی کا نعرہ اس وقت تک ہی لگایا جب تک کہ ان سب کو امریکی ریاست نے استعمال کر کے کوڑے دان میں نہ پھینک دیا۔ مثال کے طور پر کردوں کی آزادی کے سلسلے میں امریکی امداد اس وقت تک ہی جاری رکھی گئی جب تک عراق میں صدام حسین موجود رہا۔عراق جنگ سے قبل ہر روز میڈیا پر اس حوالے سے خبریں اور تبصرے ہوتے تھے لیکن آج کردوں کی تحریک کے حوالے سے شاذ ہی کوئی خبر دکھائی دیتی ہے۔ دراصل کردوں کی مستقل حمایت صرف عراق کے صدام حسین سے ہی مشروط تھی،کیونکہ کردوں کی مستقل حمایت نے امریکا کے ایک بڑے حامی ملک ترکی کو امریکا مخالف بنا دیا تھا۔ امریکی ریاست اپنے مفادات کے سلسلے میں مشرقِ وسطیٰ میں ایسی کسی بھی مخالفت کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یوں ترکی کومعاشی طور پر نوازا گیا اور امریکا کی طرف سے کردوں کی عدم حمایت بھی ترکی کے لیئے مراعت ثابت ہوئی۔ افغانستان پر امریکی حملے سے قبل یہ دعویٰ کیا گیا کہ افغانستان میں جدید جمہوری سماجی رشتوں کو پروان چڑھایا جائے گا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا نے افغانستان میں موجود پرانے سماجی رشتوں کو ہی استعمال کیااور اس وقت افغانستان میں سماجی اور سیاسی تبدیلی کا مسئلہ امریکی ریاست کی ترجیح نہیں رہا ہے۔ یعنی افغانستان کو اتنی ہی اہمیت ملی جتنی کہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء پر قبضے کے سلسلے میں افغانستان کے سیاسی جغرافیے کی امریکا کوضرورت تھی۔

یہ جمہوریت کا دعویدار امریکا ہی تھا، جس نے اپنی فوج کو نیپال میں ان گوریلوں کے خلاف استعمال کرنا چاہا جو آمریت اور شہنشاہیت کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ مارکس نے کس قدر درست کہا تھا کہ ”سرمائے کا کوئی بھی مذہب،اخلاق اور نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے لوٹ کھسوٹ اور استحصال۔“

اس سارے تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس دور میں مظلوموں و محکوموں اور جبری ریاستوں میں جکڑی ہوئی قوموں کو عالمگیر سامراجی قوتوں کا اتحادی نہیں بلکہ مظلوموں اور محکوموں کی عالمگیر تحریک کا حصہ بننا ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ عالمی سوداگر اور ان کی گماشتہ قوتیں ہر مظلوم قوم تو کیا بلکہ کرہ ارض پر ہر فرد کی زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دے گی۔