شون سے وابسطہ امیدیں – محمد عمران لہڑی

250

شون سے وابسطہ امیدیں

محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

سمجھ میں نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں… کن الفاظ سے آغاز کروں؟ دانشور کے قول سے یا شاعر کی شاعری سے، ادیب کے نصیحت سے یا لکھاری کے معنی خیز الفاظ سے.میرے ذہن میں اب تو الفاظ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے. کیونکہ ایک ایسی مجلس, محفل, کچاری, دیوان میں شرکت کا موقع ملا جہاں اپنے قوم اور سرزمیں سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ اور فکر پیدا کرنے کے لیئے شاعری اور تقریر سننے کو ملے. مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر کسی قوم کے زندگی سے ادب کو نکالا جائے تو وہ ایک مردہ قوم بن جاتا ہے. نہ کوئی اس کا نام لے گا، نہ کوئی اُسے ایک قوم تصور کرے گا. شاید میرا سوچ درست ہو اس حوالے سے. کیونکہ یہ ادب ہی ہے جہاں شاعر, نقاد, افسانہ نگار اور ناول نگار اپنے ماضی کو مدنظر رکھ کر حال میں قلم اٹھاکر مستقبل کو بیان کرتا ہے, تاریخ کو زندہ رکھتا ہے. اگر کسی قوم کی وجود برقرار رہتی ہے تو اس میں سب سے اہم کردار ایسے طبقے کے اشخاص کا ہے جو اپنے قوم کے ہر پہلو کو انتہائی غور و فکر سے دیکھ کر اس کے منفی پہلو سے قوم کو خبردار اور مثبت پہلو کے طرف قوم کو راغب کرتے ہیں. وہ چاہے شاعری کا سہارا لے یا کہ ادب کے کسی اور صنف کا. لیکن بشرطیکہ وہ ادیب اور شاعر کسی لالچ اور خوف کے بغیر اپنے قلم کو حرکت میں لائے. سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ لکھے. ہاں ایسے بھی تو شاعر اور لکھاری تاریخ میں گذرے ہیں جو حاکم وقت کو خوش رکھنے کے لئے سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید لکھے ہیں. یہ ادب کے ساتھ ظلم عظیم ہے اور ایسے لکھاری کو تاریخ نے وقت کا سب سے بڑا منافق اور ظالم قرار دیا ہے. تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔

بلوچستان اپنی لمبی عمر میں بہت سے نشیب و فراز سے گذری ہے. جتنے ظلم اور زیادتیاں اس لمبی عمر سرزمین کے ساتھ پیش آئے ہیں، اگر کوئی مورخ, ادیب, شاعر, افسانہ نگار یا ناول نگار بیٹھ کر لکھے، لکھتا رہے اور لکھتے صفحے کم پڑیں گے, قلم کی سیاہی خشک ہوگی لیکن لکھاری کے الفاظ ان مظالم اور زیادتیوں کو بیان کرتے کرتے ختم نہیں ہوسکتے. شاعر کی شاعری, ناول نگار کے ناولز, افسانہ نگار کے افسانے کبھی ختم نہیں ہوں گے. یہ خطہ کبھی فارس قوم کے قبضے میں آکر قید ہوا ہے تو کبھی منگول نسل کے لوگ اس پر وارد ہوئے ہیں. ایک صدی پہلے انگریز سامراج کے قبضے سے ہوکر گذری ہے. ان سارے نشیب و فراز, ظلم و ستم کے داستان ادب کے ہی ذریعے قوم کے ایک نسل سے دوسرے نسل تک پہنچ جاتے ہیں. اس لیئے کسی قوم کے وجود کو زندہ رکھنے میں ادبی تنظیموں کا انتہائی اہم کردار ہے.

شون ادبی دیوان بلوچستان کا گذشتہ دنوں ایک روزہ سیمینار منقعد ہوا. جوکہ چار حصوں پر مشتمل تھا. پہلے حصے میں تنظیم کے نئے منتخب کابینہ سے حلف لیا گیا, دوسرے حصے میں تنظیم کا بوگ شوگ (مزاحیہ) شاعر احمد نعیم کی کتاب “الف ب” کی رونمائی ہوئی, تیسرے حصے میں بلوچستان کے کونے کونے سے آئے براہوئی اور بلوچی زبان کے شاعر حضرات نے اپنا اپنا کلام پڑھ کر سنایا. جبکہ سیمینار کے آخری حصے میں ساز زیمل تھا جہاں گلوکار خالق فرہاد نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا.

یہ میرے لئے ایک سیمینار کم سیکھنے, سوچنے اور شعور پھیلانے کا درس گاہ زیادہ لگا. کیونکہ اس دیوان کے زیادہ تر حصے میں براہوئی اور بلوچی زبان کے شاعر حضرات نے اپنے کلام کو سناتے ہوئے جو شاعری کی، اسکی شکل میں اس خطے میں رونما ہونے والے ظلم, جبر, نا انصافیاں اور غیر انسانی عمل کو عیاں کیا. ان کے الفاظ میں ایک درد چھپا ہوا تھا. ایک فکر تھی ایسا فکر جو انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے. ایک خواب تھا ایسا خواب جو انسان کو سونے نہیں دیتا. ان کے الفاظ میں ایک آس تھی، امید تھا، تمنا تھا. ان شعراء کے اشعار نے ایک ایسا سماں پیدا کیا تھا ایک ایسا منظر پیش کررہا تھا کہ جنگ بھی تھی اور محبت بھی. ایک طرف حمل جیئند کے بہادری کے قصے، دوسری طرف شے مرید وحانی کے محبت کی داستان.

گویا بلوچ قوم کے مزاج میں جنگ بھی ہے محبت بھی. ایک ایک چیز جو اس قوم میں منفرد ہے وہ اس کی حالت ہے. اگر جنگ کرتا ہے تو دل سے اور اگر محبت کرتا ہے تو بھی دل سے. اس حالت میں ایسا مدہوش رہتا ہے اگر جان چلی جائے تو بھی دریغ نہیں کرتا. بلوچ قوم کی اگر ادب کو ترقی ملی تو پھر اس قوم کو کوئی ورغلا نہیں سکتا. حقیقی معنوں میں ادیب, دانشور, شاعر اور لکھاری اپنے فرائض سرانجام دیکر اس قوم کے روشن مستقبل کا پتہ دیکر ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کی تاریخ میں اعلٰیٰ مقام دلوائے.

اس دیوان میں اس شاعر کو بھی سننے کا موقع ملا جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ کے پڑھنا لیکن ایک شاعر تھا. یہ شاید دوسرے لوگوں کیلئے ایک ناممکن سی بات ہوگی کہ جو لکھنا نہیں جانتا ہو وہ کیسے اپنے ذہن میں اپنے خیالات کو الفاظ اور ان کے وزن کے مطابق ترتیب دیکر شاعری کرتا ہے. لیکن یہ تو ممکن ہے مجید ارمانی کے صورت میں جو نا لکھنا جانتا ہے اور نہ پڑھنا لیکن زبانی شاعری کرتا ہے. اپنے ذہن میں سوچ اور خیالات کو شاعری کے شکل دیکر الفاظ ترتیب دیکر بیان کرتا ہے.

اس سیمینار میں ادیب اور شاعر حضرات کے علاوہ سیاسی لوگ اور طلباء بھی کثیر تعداد میں موجود تھے. بہت سے لوگوں نے اس ادبی تنظیم میں شمولیت کیا.

شون ادبی دیوان ایک قدم آگے نئے جذبے اور ہمت کے ساتھ رکھا. نئے منتخب کابینہ سے اس قوم کے بہت سی امیدیں وابسطہ ہیں. بلوچستان کے موجودہ حالات اور اس قوم کے بے بسی کو, بھوک اور افللاس کو بیان کرنے والا ضرور اس سرکل سے نکلے گا. وہ شاعر بھی ملے گا جو سنت ملا مزار کو زندہ رکھے گا. براہوئی اور بلوچ زبان کے ترقی اور ترویج اور بلوچ قوم کے نوجوانوں کے ہمت اور حوصلے بلند کرنے کا سبب بنے گا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔