بلوچستان کے لاپتہ افراد
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کرکٹ ورلڈکپ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا، جہاں اس ورلڈکپ کو انگلینڈ نے جیت کر کرکٹ کی دنیا میں نئی تاریخ رقم کی۔ وہیں کرکٹ کا یہ ورلڈکپ گذشتہ تمام ورلڈکپوں سے منفرد اور الگ رہا ہے۔
اس ورلڈکپ میں کھیل کے مناظر کے علاؤہ بھی الگ نظارے دیکھنے کو ملے۔ یہ نظارہ کرکٹ کے میچ کے دوران سر زمین بلوچستان میں جبری گمشدگیوں سے متعلق آگاہی مہم تھا۔ بلوچ ریپبلیکن پارٹی ( بی آر پی) اور ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن (ڈبلیو بی او ) نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف مشترکہ آگاہی مہم چلائی۔ اس پر امن مہم کا مقصد مہذب دنیا کو بلوچستان میں بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی درخواست کی گئی۔
بلوچستان میں بلوچ نوجوان، اسٹوڈنٹس، بلوچ عورتیں،بچے بوڑھے ، سیاسی کارکن، ٹیچرز، ہر کوئی پاکستانی ظلم اور بربریت کا شکار ہے۔
بلوچستان میں پاکستان کے ظلم میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ بلوچستان کی سر زمین سونے ، چاندی، کاپر جیسی قدرتی معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ بلوچستان کی زمین سونا اگلتی ہے اور اب سونے کے ساتھ ساتھ اپنے فرزندوں کی لاشیں بھی اگلتی ہیں۔
بلوچستان کے ایک علاقے دشت میں لاوارث بلوچوں کے نام پر پاکستان نےایک قبرستان بنایا ہوا ہے۔ وہ لاوارث لاشیں نہیں ہیں، بلوچستان کے فرزند ہیں۔ جنہیں پاکستانی آرمی جبری طور پر گمشدہ کرتی ہے۔ اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کو بغیر DNA ٹیسٹ کے لے جا کر دفناتے ہیں۔
پاکستان کے خفیہ ایجنسیاں بلوچ نوجوانوں کو نشان بن کر انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کے کئی قمیتی سالوں کو کال کوٹھڑیوں کے اندھیروں میں گمنام رکھتے ہیں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں۔ پاکستانی فوج بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی پاکستان کے مظالم پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔
بلوچ قوم ہر فورم پر پاکستان کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے۔ ماما قدیر بلوچ، بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مسنگ پرسنز کے لیے پر امن طور پر احتجاج کر رہا ہے۔ ماما قدیربلوچ کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو +3600 سے بھی زیادہ دن ہو چکے ہیں۔ لیکن اسکا بھی کچھ حاصل نہیں، پاکستانی میڈیا میں اس مسئلے کو نہ اجاگر کیا جاتا ہے اور نہ اس مسئلے پر بات کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں پر فوج کی طرف سے قدغن لگائی گئی ہیں۔ پاکستانی میڈیا سنسرشپ کی زد میں ہے، پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی سزا موت کے طور پر آپ کو خفیہ اداروں کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں بھی اس معاملے میں پاکستانی خفیہ اداروں سے باز پرس کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں۔
ماما قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل ریکی بلوچ جو بلوچ ریپبلیکن پارٹی (بی آر پی) کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری تھے۔ ان کو پاکستانی فورسز نے جبری طور پر اغواء کیا اور پھر اسکی مسخ شدہ لاش کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے علاقے میں پھینک دیا۔اسکے بعد ماما قدیر بلوچ نے اس ظلم کے خلاف اور بلوچ لاپتہ افراد کے لیئے جدوجہد شروع کی۔
ماما قدیر بلوچ نے تاریخ کا سب بڑا لانگ مارچ کیا اور گاندھی جی کے لانگ مارچ کے ریکارڈ کو توڑ دیا۔ ماما نے کوئٹہ سے کراچی اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جس میں خواتین بھی شامل تھیں، اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کیا۔ اور اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم کے نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں کمی نہ آئی۔
بلوچ قوم آج بھی اپنی زمین پر اپنی خود مختاری اور آزادی کیلئے پاکستان کے ساتھ جنگ لڑ رہی ہے۔ دنیا کے مہذب اقوام بلوچ قوم کے آزادی کی اس تحریک میں ان کا ساتھ دیں، انہیں پاکستان جیسے ظالم ریاست کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد دیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔