بلوچستان اور میڈیا – گہرام اسلم بلوچ

350

بلوچستان اور میڈیا

گہرام اسلم بلوچ ۔ سابق چیئرمین بی ایس او ( پجار)

دی بلوچستان پوسٹ

ملک کے چاروں وحدتوں میں سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ بلوچستان ہے، بلوچستان کو ہر لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا، بلوچستان میں مسائل روز بہ روز بڑھتے جارہے ہیں، بلوچستان بلوچستان سے مسائلستان کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ جدید دور میں عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ میڈیا کسی بھی ریاست کا اہم ستون کی حثیت رکھتی ہے کسی بھی قومی، ملکی مسائل کو ہر فورم پہ اٹھانے کی اہمیت اپنی جگہ اگر وہ مسئلہ میڈیا کی نظر نہ ہو تو وہ مسئلہ چاہے کتنی اہمیت کی حامل ہو، وہ سرد خانے میں جائے گی، اسی طرح ہم اور آپ سے لیکر ملک کے جرنلسٹ سیاستدان اور دانشور یقینا یہ محسوس کررہے ہوں گے کہ بلوچستان کا کوئی بھی مسئلہ آج تک ملکی میڈیا کے توجہ کا مرکز نہیں رہا۔ بلوچستان کو ہمیشہ ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت انکے بقاء کے بیانیئے کو صحیح طرح پیش کرنے میں میڈیا کا تسلی بخش کردار نہیں ہے۔

اگر آج سے ستر سال قبل میڈیا بلوچستان کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پہ space دیتے تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی ,الیکٹرونک میڈیا پر بلوچستان کا نام اس وقت سننے یا دیکھنے میں آجاتا ہے جب بڑا سانحہ رونما ہو، جب تک پولیس لائن یا وکلا یا اقلیت پہ ہزاروں انسانوں کی شہادت ہوگی تو زیادہ سے زیادہ ایک دن ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بنتا ہے، جب کہ اس کے برعکس باقی صوبوں کے کسی بھی ایک اہم شخصیت کے گھر سے اگر کبوتر کے انڈے گر جائیں تو نیوز بریک کی جاتی ہے۔ جبکہ گذشتہ روز گوادر میں ایک نوجوان نے بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کرلی مگر اس حوالے سے نیوز اپنی جگہ ٹیکر چلنا بھی بڑی بات ہے۔

ملک میں مفاد عامہ کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر رونما ہونے والے شہری مسائل سے توجہ مرکوز کرنے میں میڈیا کا تسلی بخش کردار نظر نہیں آتا اگر میڈیا کا یہ پالیسی اسی طرح تسلسل کے ساتھ برقرار رہا تو میڈیا کی جو ملکی و آئینی ذمہ داری ہے نہ اس میں کامیاب ہوگا نا ملکی بیانیئے کو صحیح سامنے لانے میں اپنا آئینی ذمہ داری پوری کرسکتی ہے ۔

اسوقت میڈیا سنسر شپ سے سلف سنسرشپ کی طرف بڑھ رہی ہے اس صورتحال میں شاید بلوچستان کے باقی مسائل اپنی جگہ روزگار انفرااسٹیکچر اور زندگی کے بنیادی مسائل کو جگہ ملے تو غنیمت ہے۔ اس جدید ففتھ جنریشن اور تیز رفتار دور میں سوشل میڈیا کے دور میں اگر کسی ٹی وی چینل یا پرنٹ میڈیا تک خبر حاصل نہیں کرسکے تو اس ٹیکنالوجی کے دور کیساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔

اسوقت اگر کوئی بھی جرنلسٹ اس کھٹن دور میں کانٹوں سے بھرا راستہ صحافت کے میدان میں رضاکارانہ طور پر قلم کی عظمت کو بلند کرنے میں نکلا ہے تو اُنکو آخری حد تک ثابت قدمی مستقل مزاجی اور حوصلے کیساتھ جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا تو معاشرہ انکی صحافتی خدمات کو یاد کریگی وگر نا اس میدان میں ہزاروں ٹی وی چینلز کے بے شمار ملازمین اور بھی ہیں۔ ہماری صحافت کے اُستاد اور طالبعلم دونوں سے بے شمار امیدیں وابستہ ہیں صحافت کے استاد سے اس لیئے کہ اس نے اس میدان میں کئی نشیب و فراز اور سخت حالات دیکھے ہیں اور اپنے شاگردوں کو اس راہ پہ چلنے کے لیے بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں اور شاگرد سے اس لیے کہ وہ اپنے استاد کے نقش قدم پہ چل کر اپنی قلم سے مظلوم انسانوں کی آواز بنیں گے۔

بلوچستان کے ایسے کئی مسائل ہیں جو میڈیا کے ترجیحات میں شامل نہیں رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے پسماندگی کے سبب بنے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ملکی میڈیا بلوچستان کے حوالے سے انکی سماجی مسائل کو کوریج دے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔