بدمعاش امریکہ اور اس کا نام نہاد میڈیا – سمیر جیئند بلوچ

216

بدمعاش امریکہ اور اس کا نام نہاد میڈیا

تحریر: سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج امریکہ کی انسانیت جاگ گئی یا اس کا مکروہ چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آگیا، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا مگر ایک بات جو کہ انتہائی افسوس ناک اور دردناک ہے یہ کہ اس نے اپنے مکروہ کارنامے کے بدولت اپنے بغل بچہ دنیا کے دہشت گرد ملک پاکستان جوکہ گذشتہ ستر سال سے بلوچ قدرتی وسائل لوٹنے کیلئے فوجی بربریت کے ذریعے انکی نسل کشی کررہی ہے، کا ہاتھ روکنے بجائے اسے مزید ڈیتھ سرٹفکیٹ جاری کرکے اپنے ہی سابقہ کالے کرتوتوں کو بے نقاب کردیاہے کہ میں کتنا وحشی اور درندگی کرنے والا بھیڑیا ہوں۔ مزید اس کے کالے کرتوتوں پر چہرہ ہٹانے کیلئے اس کے اپنے ہی ایک دانشور اور زندہ ضمیر صحافی کے زبانی سنتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے کہ ”بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جو کہ اپنی سرزمین سے پاکستانی قبضے کے خلاف برسر پیکار ہے کیوں دہشت گرد قرار دیا گیا؟ کیا اس کے پیچھے واقعی انسانی بھلائی کا فارمولہ تھا یا انہوں نے اپنی درندگی اور ذاتی مفادات کے خاطر یہ استحصالی فیصلہ کرلیا؟۔

ولیم بیلم اپنے کتاب ”Rogue State“ میں لکھتے ہیں “امریکہ نے دنیا کے کئی حکومتوں کے تختے الٹائے،لاکھوں لوگوں کو قتل کیا اور آج دنیا کی واحد سپر پاور طاقت بنا بیٹھا ہے، امریکہ نے آج جو اقتصادی و فوجی طاقت حاصل کی ہے وہ بھی اس کی سازشوں اور مکروہ فریب کا نتیجہ ہے۔ بظاہر امریکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے لیکن اصل میں وہ دونوں کا قاتل ہے، صرف اپنے مفادات پورے کرتاہے“وہ لکھتے ہیں کہ جب امریکہ کہیں وحشت اور درندگی کر رہا ہوتا ہے اور اسکے مکروہ چہرے کو عوام جان جانتے ہیں تو فوراً نام نہاد میڈیا جو کہ خود کو انسانیت کا چیمپئن سمجھتے ہیں اپنے آقا کے حق میں تمام حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ”افغانستان پر کی جانے والی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے آتی رہیں اور ظاہر ہے کہ اس کے خلاف ہر جگہ عوامی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا۔ اس خوفناک تصویر کشی کے ردعمل کے طورپر امریکہ کے خلاف نفرت میں بے حد اضافہ ہوا، ایسے میں امریکی میڈیا اپنا کردار نبھانے کیلے آگے بڑھا۔

چیئرمین سی این این نے اپنے شعبہ خبر کو ہدایت دی کہ وہ افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں اور دیگر نقصانات اور مشکلات کے بارے میں کم سے کم خبریں دیں۔ فاکس نیٹ ورک کی ”واررپورٹ“ میں اس بات پر خاصی ناپسندگی کا اظہار کیا گیا کہ اخبار نویس شہری اموات کے بارے میں لکھتے ہی کیوں ہیں؟ اسی پروگرام میں میزبان نے سوال کیا کہ کیا تاریخی طورپر شہری اموات سچ مچ جنگ کا حصہ ہیں اور کیا یہ اتنی بڑی خبر ہونی چاہیئے جیسے کہ اسے پیش کیا جارہاہے۔؟ اس پر محترم مہمان نے جوڈیشنل پبلک ریڈیو کی جانب سے تھے فرمایا کہ نہیں، جنگ تو لوگوں کو مارنے کیلئے ہی ہوتی ہے، ایسے میں شہری آبادی کا ہلاک ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ انہی کے ساتھ بیٹھے دوسرے محترم مہمان نے جو ایک قومی رسالہ یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے کالم نویس تھے،نے اپنے نادر خیالات پیش کرتے ہوئے کہاکہ شہری آبادی کی ہلاکتیں تو کوئی خبریں نہیں یہ تو جنگ کے ساتھ ہوتی ہی ہیں۔

پانامہ سٹی میں فلوریڈا نیوز ہیرالڈ کے ایڈیٹر وں کو متنبہ کیا گیا کہ صفحہ اول پر ایسی تصویر یں نہ لگائی جائیں، جن میں ریاست ہائے متحدہ کے ہاتھوں افغانوں کی ہلاکتیں اور افغانستان کی تباہی و بربادی کے مناظر ہوں۔ اور جب ”فورٹ والٹن بیچ“میں دوسری شاخ نے ایسا کیا تو انھیں سینکڑوں کی تعداد میں دھمکی آمیز ای میلز وصول ہوئیں۔ میڈیا پر حکومت کی اس حد تک کنٹرول ہے کہ طویل تحقیق کے بعد بھی شاید ہی کوئی ایسا امریکی روزنامہ ملے جس نے واضح طورپر امریکی بمباری کی مخالفت کی ہو”یو ایس“ نیٹو کی جانب سے دوسال قبل یوگوسلاویہ پر ہونے والی بمباری کے خلاف آواز اٹھائی ہو یا ۱۹۹۱ء میں عراق پر ہونے والی امریکی بمباری کی مذمت کی ہو۔ کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ جس معاشرہ کو آزاد سمجھا جاتاہے، جہاں پریس کی مکمل آزادی کا تصورہے، جہاں پندرہ سو روزنامے شائع ہوتے ہوں، مگر سب کے سب فیصلہ کن انداز میں ایک ہی بولی بولیں۔

منافقت کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے صدر بش اور دیگر سرکاری اہلکار یہ اعلان کرتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی یہ جنگ صرف دہشت گردوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہر اس اس ملک کے خلاف ہے جو دہشت گردوں کو پناہ دیتاہے یا پناہ دے گا۔“

اگر امریکہ کہ اس اعلانیہ پر ہی انگلی اٹھائی جائے تو سوال بنتاہے پھر آپ ہی خود دہشت گردی کی نرسری ہو اور اپنے دوسرے پاکستان جیسے غیر فطری اور بغل بچہ ممالک زریعے اس کی آبیاری کر رہے ہو تو اپنے لیئے اور ان کے لیئے سزا کیا ہوگا؟ یقیناً اس سوال کے جواب میں وہ حسب معمول گردن لٹکائے بیٹھیں گے لہٰذا اب یہ ذمہ داری اقوام عالم کی ہے کہ وہ انسانی اقتدار اور تہذیب کو بچائے رکھنے اور انسانی جان کو اولیت دینے کیلئے امریکہ جیسے کالے بھیڑیوں سے کس طرح مقابلہ کرتے ہیں؟ اگر عالمی دنیا کے تہذیب یافتہ ممالک مظلوم اقوام بلوچ یا کسی اور کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے دہشت گرد قرار دینے پر چپ کا روزہ رکھتے ہیں تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور وہ بھی مہذب معاشرے کے بجائے حیوانی اور وحشی کھلائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔