امریکی فیصلہ اور بلوچ قومی تحریک
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
امریکہ کے کسی بھی فیصلے کو لے کر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا اظہار کبھی واضح طور پر نہیں کرتے اور ان کی ڈپلومیسی اس سطح کی ہوتی ہے جو ابہام سے بھرپور ہوتی ہے۔ نفسیاتی حربوں میں وہ ظاہر کچھ کرتے ہیں اور پس پردہ کرتے کچھ ہیں لیکن ہرگز ان کے ظاہری بیانیہ کو دیکھ کر حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم بلوچ اس قدر چیزوں کو سیاہ و سفید میں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ عالمی علم سیاسیات کے چالوں کو سمجھنے کے بجائے کسی قرارداد پر بغلیں بجا کر تو کسی ظاہری پابندی پر ردعمل دکھاتے ہیں لیکن عالمی سیاسیات کی پیچیدہ کسوٹی کو ہم جدید سائنسی طریقہ کار سے پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ پس پردہ حقیقت میں کیا چل رہا ہے۔ امریکہ جیسی قوت کیا زمینی حقائق سے غافل ہوسکتا ہے؟
ہنری کسنجر نے بلوچ مسئلے کو ایک علاقائی مسئلہ قرار دے کر اس کی اہمیت سے انکار کیا تھا کیونکہ کولڈ وار میں پاکستان امریکہ کی ضرورت تھی لیکن وقت کا پہیہ گھومتے گھومتے بلوچ کی حق خودارادیت کی قرارداد سے لے کر بی ایل اے جیسی قومی تنظیم پر پابندی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ بلوچ ایک ابھرتا ہوا قوت ہے اور امریکہ بلا ضرورت یا محض پاکستان کو خوش کرنے کی حد تک پابندی بھلا کیوں لگانے لگا؟ ایک لمحہ کے لیئے ہم تسلیم کر بھی لیں لیکن جیش العدل جو ایران کے خلاف برسرپیکار ہے اس پر امریکی پابندی کا کیا جواز ہوگا؟
عالمی تعلقات میں تبدیلی مستقل طور پر ہوتی رہتی ہے، رشتوں کا تعین خالصتاً مفادات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی بھی رشتہ مستقل قائم نہیں رہتا، بہترین اتحادی بدترین دشمن بن سکتے ہیں اور بدترین دشمن بہترین اتحادی بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن اس کو سمجھنے کے لیے سطحی سوچ سے بالاتر ہونا پڑتا ہے۔ امریکہ جنگ عظیم دوئم کے بعد نفسیاتی برتری بنانے اور کولڈ وار کے بعد تک اسے قائم رکھنے میں اب تک کامیاب رہا ہے، یہ اس کی نہ سمجھ آنے والی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اپنے اپروچ میں انتہائی ڈپلومیٹک ہوتے ہیں، ویتنام کے تجربات کا نچوڑ انہوں نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف عملی تجربے کی صورت میں کامیابی حاصل کی۔ جان کے کولی “غیر مقدس جنگوں” میں لکھتے ہیں کہ ہنری کسنجر نے دنیا کے نقشے پر غور کرتے ہوئے غور سے افغانستان کو دیکھا پھر سابقہ سوویت یونین کو اور ایک تاریخی جملہ کہا “افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے تو پھر کیوں نہ ہم سوویت یونین کو یہاں لے آئیں اس کے انجام کی جانب؟”
امریکہ الجھانے کے ہنر سے آشنا ہے اور وہ اس قدر بچگانہ نہیں جس قدر ہم اپنے ردعمل میں اظہار کرتے ہیں۔ قرارداد سے لے کر پابندی تک بلوچ کی طاقت کو خطے میں تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور اب یہ بحث ضرور جنم لے گی کہ بلوچ جدوجہد کی نوعیت کیا ہے؟ امریکہ کی پابندی سمیت بلوچ موقف بھی عالمی میڈیا میں سامنے آئے گا۔
یہ بات واضح رہے کہ امریکی ماہرین نے سی پیک پر حملوں کے اثرات کو نہایت اہم قرار دیا تھا اور جن واقعات کو جواز بنا کر بی ایل اے پر پابندی لگائی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچ تحریک حملوں میں اپنا سیاسی ہدف مکمل کامیابی سے حاصل کرچکی ہے۔
بی ایل اے نے اپنی نئی حکمت عملی سے بلوچ قومی جدوجہد آزادی کو ایک نئے فیز میں داخل ہونے میں مدد فراہم کی اور امریکہ سمیت عالمی قوتوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن اب بلوچ قائدین پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحریک کو مزید منظم کرنے اور اپنے طاقت کو مزید بڑھانے کے لیے انقلابی ذمہ داریوں کا تعین کریں۔ بالخصوص ہائی کمانڈ کی حفاظت اس وقت سب سے لازم ہے کیونکہ ریاست کی نئی پالیسی میں اس پر زیادہ زور دیا جارہا ہے کہ فیصلہ کن کرداروں کو ختم کیا جائے لیکن اس حوالے سے دوراندیشانہ پالیسیاں ہی بلوچ لیڈرشپ کی حفاظت کے لیئے کارگر ثابت ہونگی۔ اس پابندی کو اس حوالے سے بھی ایک پیغام کے طور پر دیکھا جائے کہ بلوچ اپنی لاپرواہیوں کو لگام دے اور کسی بھی خوش فہمی کا شکار ہونے کی بجائے محتاط پالیسیاں ترتیب دے۔
کسی بھی لیڈر کی ذاتی تشہیر سے گریز کیا جائے وگرنہ نتیجہ ہم جانتے ہیں کہ ریاست کے لیے آبیل مجھے مار کے مصداق کام آسان ہوگا۔ بشیر زیب، ڈاکٹر اللہ نذر جیسے رہنما اپنی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے سوشل یا کسی بھی طرح کے میڈیا سے دور رہیں، تصاویر کی سوشل میڈیا پر اشاعت مکمل طور پر ختم کی جائے اور ایک ایسا سیکورٹی طریقہ کار ہو جہاں دشمن کو آسان ہدف نہ مل سکے۔ انفرادی تشہیر میں ریاست کے لیئے کام آسان بن جاتا ہے اور اس کا نتیجہ ہم استاد جنرل اسلم کی شہادت کی صورت میں دیکھ چکے ہیں، اب مزید تحریک کسی ایسی تنظیمی غفلت کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ ایسا نقصان سمبولک ہوتا ہے، نفسیاتی وار سب سے زیادہ نقصان دے ہوتا ہے جس کے لیئے دشمن کو ہرگز موقع نہیں دیا جانا چاہیئے۔ تمام آزادی پسند اس حوالے سے سنجیدہ لائحہ عمل طے کریں کیونکہ آنے والے دور میں بلوچ گلزمین یقینی طور پر عالمی قوتوں کا اکھاڑہ بننے والا ہے اور بلوچ تحریک کی بقاء ایک اہم سوال ہے جس کے لیے انقلابی اقدامات ناگزیر ہیں۔
کسی بھی مسئلہ یا معاملے میں اگر ضرورت ہو تو تنظیمی ترجمان کے ذریعے عالمی دنیا یا قوم کو پیغام دیا جائے لیکن ذاتی تشہیر کے ذریعے منظر عام پر آنے سے گوریلا جنگی حکمت عملی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہی ہوگی اور اس نتیجے میں صرف نقصان ہی ہوگا۔
بلوچ تحریک اپنی قوت منوا چکی ہے لیکن ہمیں کسی بھی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہونے یا کسی بیرونی قوت کی محتاجی کا سوچنے سے بچتے ہوئے اپنی تحریک کا خود ہی وارث بننا ہوگا اور نیشنلزم کے نظریے پر کارفرما ہوکر اپنی منتشر قوتوں کو یکجا کرتے ہوئے آگے بڑھانا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔