امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں ایک ایرانی ڈرون کو مار گرایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یو ایس ایس باکسر نامی امریکی جنگی بحری جہاز نے جمعرات کو اس وقت دفاعی کارروائی کی جب یہ ڈرون بحری جہاز کے 1000 گز تک قریب آیا۔
ادھر ایران نے کہا ہے کہ اس کے پاس اپنے ڈرون کے تباہ ہونے کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ ایران نے کچھ روز قبل فضائی حدود کی حلاف ورزی پر امریکہ کا بغیر پائلٹ کے ایک ڈرون بھی مار گرایا تھا جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی کہ ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
ادھر تہران نے جمعرات کو یہ بھی کہا کہ اس نے ایک غیر ملکی ٹینکر کو 12 افراد کے عملے سمیت پکڑا ہے جو خلیج میں ایندھن سمگل کر رہا تھا۔
امریکہ رواں برس مئی کے بعد سے اب تک متعدد بار ایران پر یہ الزام عائد کر چکا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے بحری علاقوں میں اس کے آئل ٹینکرز کو نشانہ بنا چکا ہے۔
حالیہ واقعات کے بعد خطے میں فوجی جنگ کے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔
امریکی صدر نے کیا کہا؟
وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا میں سب کو آبنائے ہومز میں ہونے والے واقعے کے بارے میں بتاتا چلوں جس میں امریکی یو ایس ایس باکسر جنگی جہاز نے شرکت کی۔
انھوں نے بتایا کہ ایرانی ڈرون نے دفاعی کارروائی کی ہے جو کہ جہاز سے تقریباً ایک ہزار گز کے فاصلے پر پہنچ گیا تھا۔ متعدد بار امریکہ کی جانب سے تنبیہ کی گئی لیکن پھر جہاز اور اس کے عملے کی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیش نظر ڈرون کو مار گرایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایران کی جانب سے بین الاقوامی پانیوں میں جاری اشتعال انگیزی کارروائیوں کی حالیہ مثال ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات، لوگوں اور دلچسپیوں کا دفاع کرے۔
اس سے پہلے امریکہ نے کہا تھا کہ ایران تیل بردار جہاز کوفوری طور پر چھوڑ دے۔
ایرانی میڈیا پر پاسدران انقلاب کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے جہاز کو سمگل ہونے سے روکا جس میں دس لاکھ لیٹر ایندھن موجود تھا۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں رائے نامی ٹینکر وہاں چکر لگا رہا ہے۔
ایران نے کہا کہ ملک کے جنوبی علاقے میں اب بھی ٹینکر موجود ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے جب امریکہ 2015 میں عالمی طاقتوں اور ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے باہر نکل گیا۔
امریکہ کا الزام ہے کہ مئی اور جون میں دو مختلف حملوں میں خلیج اور عمان میں اس کے آئل ٹینکرز کو نشانہ وبنایا گیا۔ تاہم تہران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ امریکی جہاز نے ایران کی فضائئ حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے انٹرویو سے کارکنان کہاں پہچائے جائیں۔ منع کیا تھا کہ یہ ضرور پڑھنا۔ تاہم امریکی بحریہ نے کہا کہ ڈرون بین الاقوامی پانیوں میں تھا اور اپنی کارروائی کو بلا اشتعال حملہ قراردیے جانے کی مذمت کی ہے۔
علاقائی کشیدگی
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے سے یک طرفہ طور پر علحیدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اس معاہدے پر سنہ 2015 میں اقوامِ متحدہ سمیت امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے تھے۔
معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کو کم تر درجے تک لے جائے گا اور صرف تین فیصد یورینیم افزودہ کر سکے گا۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے اور پابندیوں کی بحالی کے اعلان کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا تھا۔ یہ یورینیم جوہری بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ گذشتہ ماہ آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکروں کو پہچنے والے نقصان کا الزام ایران پر عائد کرتا ہے جبکہ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ایران نے کچھ روز قبل فضائی حدود کی حلاف ورزی پر امریکہ کا بغیر پائلٹ کے ایک ڈرون بھی مار گرایا تھا۔ جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی کہ ‘ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
برطانیہ کے اس بیان کے بعد کہ جون میں آئل ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ دار یقینی طور پر ایرانی حکومت ہے، ایران اور برطانیہ کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا ہے۔
برطانیہ ایران پر دوہری شہریت رکھنے والی نازنین زغاری ریٹکلف کی رہائی کے لیے بھی دباؤ ڈال رہا ہے جن کو سنہ 2016 میں جاسوسی کے الزامات میں پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی تاہم وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے انکار کرتی ہیں۔